’حملے کی منصوبہ بندی پہلے سے تھی‘، ڈاکٹر عافیہ کی اپیل مسترد
6 نومبر 2012امریکی شہر نیو یارک کی ڈسٹرکٹ کورٹ آف اپیلز کے مطابق ایک زیریں عدالت کے جج نے علم الاعصاب کے شعبے کی محققہ 40 سالہ عافیہ صدیقی کو سماعت کے دوران اپنے دفاع میں بیان دینے اور اُن کے خلاف بعض شواہد پیش کرنے کی جو اجازت دی تھی، وہ ایک درست فیصلہ تھا۔
ڈاکٹر عافیہ پر اقدام قتل اور مسلح حملے سمیت کئی دیگر الزامات کی وجہ سے فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اس کے بعد ستمبر 2010ء میں امریکی ضلعی عدالت کے جج رچرڈ بیرمن نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86 برس قید کی سزا سنائی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کی گرفتاری اور بعد میں سزا کے خلاف پاکستان میں مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی گئی اور کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے مظاہرے بھی کیے گئے۔
رپورٹس کے مطابق عافیہ صدیقی کو جولائی 2008ء میں افغان پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ افغان حکام کے بقول گرفتاری کے وقت ملزمہ کے پاس سے 900 گرام سوڈیم سائنائیڈ اور نیو یارک میں حملوں کے بارے میں کچھ دستاویزات برآمد ہوئی تھیں۔ حکام کے بقول اگر نیویارک میں یہ حملے کامیاب ہو جاتے تو بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوتا۔ بتایا جاتا ہے کہ گرفتاری کے ایک روز بعد تفتیش کے دوران انہوں نے ایک اہلکار سے ایم 4 رائفل چھینتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کر دی اور اس دوران وہ امریکا کے لیے موت جیسے نعرے لگاتی رہیں۔ امریکی استغاثہ کے بقول تفتیشی کمرے میں ہونے والی فائرنگ سے کوئی بھی امریکی اہلکار زخمی نہیں ہوا لیکن جوابی کارروائی میں ڈاکٹر عافیہ زخمی ہو گئیں۔
ڈاکٹر عافیہ کے وکلائے دفاع کا موقف ہے کہ ان کے مؤکل نے گھبراہٹ میں فائرنگ کی تھی اور اس واقعے کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وکلائے دفاع میں سے تین کی فیس پاکستانی حکومت ادا کرتی ہے۔
نیویارک کی اپیلز کورٹ نے جج رچرڈ بیرمن کے اس موقف کی بھی تائید کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی طرف سے کیا جانے والا یہ حملہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تھا اور اس پر دہشت گردی کے الزام میں سزا کا اس لیے اطلاق ہوتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر امریکیوں کو نقصان پہنچانے پر آمادہ تھیں۔
ai / aa ( Reuters)