1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حوثی باغی اور سعودی حکام خفیہ مذاکرات کر رہے ہیں، ذرائع

15 مارچ 2018

سعودی عرب اور ایران نواز حوثی باغی یمن میں قیام امن کی خاطر خفیہ مذاکرات کر رہے ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق دونوں فریق یمنی خانہ جنگی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے ایک پائیدار حل کے خواہاں ہیں۔

https://p.dw.com/p/2uP8B
Ein Stammesangehöriger, der den Houthi-Rebellen treu ist, hat während einer Versammlung Parolen gesungen, die darauf abzielten, mehr Kämpfer an Kampffronten zu mobilisieren, um in einigen jemenitischen Städten, in Sanaa, Jemen, Regierungstruppen zu bekämpfen
تصویر: picture-alliance/H.Mohammed

خبر رساں ادارے روئٹرز نے یمنی سیاستدانوں اور سفارتی ذارئع کے حوالے سے جمعرات کے دن بتایا ہے کہ حوثی باغیوں کے ترجمان محمد عبدالسلام عمان میں سعودی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ یمنی بحران کا پرامن اور پائیدار حل تلاش کیا جا سکے۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ تین برسوں سے جاری اس بحران کے خاتمے کی خاطر دونوں فریقین تیار ہیں۔ تاہم سعودی یا یمنی باغیوں نے اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

سعودی عسکری اتحاد یمن میں فعال ان باغیوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔ ریاض کا الزام ہے کہ ان باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے تاہم حوثی باغی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

ساتھ ہی تہران حکومت بھی کہتی ہے کہ وہ ان باغیوں کو کوئی مدد فراہم نہیں کر رہی ہے۔ اس خونریز خانہ جنگی کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔

عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کی یمن کی خانہ جنگی کا پرامن حل تلاش کیا جائے۔ اس مقصد کی خاطر اقوام متحدہ سمیت مغربی اور عرب ممالک مشاورتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم سعودی عرب کے حکام اور حوثی باغیوں کے مابین براہ راست خفیہ مذاکرات کی خبر سے اس بحران کے حل ہونے کی ایک نئی امید پیدا ہو گئی ہے۔

ایک سفارتکار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا ہے کہ سعودی عرب اور یمنی باغیوں میں مشاورت کا سلسلہ جاری ہے، ’’یہ واضح ہے کہ فریقین اس بحران کے حل کی خاطر سنجیدہ ہیں۔‘‘ تاہم یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ اس مذاکرتی عمل میں کتنی پیش رفت ہوئی ہے اور فریقین جنگ بندی کی خاطر کیا شرائط رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان بھی عندیہ دے چکے ہیں کہ یمنی جنگ کو ختم ہو جانا چاہیے۔ اس جنگ کے نتیجے میں یمن قحط کے دہانے پر پہنچ چکا ہے تاہم کسی فریق کی کامیابی ابھی تک نظروں سے اوجھل ہے۔