حکومت عمران خان کو قائل کرنے میں ناکام
13 اگست 2014پاکستانی وزیراعظم نواز شریف حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ’پی ٹی آئی‘ کے سربراہ عمران خان کو لانگ مارچ کا ارادہ ترک کرنے پر قائل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا، ’’ میں احتجاج کے حق کا احترام کرتا ہوں لیکن یہ حدود اور قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے۔ کسی کو بھی ملک کو غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُن کی حکومت گزشتہ برس ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات عدالت عظمٰی کے ججز سے کرانے پر تیار ہے۔ شریف کے بقول اس سلسلے میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو آزادانہ انداز میں اس حوالے سے پیدا تمام شکوک و شبہات کو دور کرے گی۔ نواز شریف نے مزید کہا، ’’ میرے عزیز ہم وطنو! حکومت کے اس اقدام کے بعد کیا کسی احتجاج کا جواز رہ جاتا ہے؟ میں اس کا جواب آپ پر چھوڑتا ہوں‘‘۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیر اعظم کی اس پیشکش کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب تک نواز شریف حکومت میں ہیں، وہ کسی کمیٹی کو قبول نہیں کریں گے۔ ’’چاہے کچھ بھی ہو ہم 14 اگست کو مارچ ضرور کریں گے اور اگر ہمیں روکنے کی کوشش کی گئی یا ہمارے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے اپنی قبر خود ہی کھود لی ہے ‘‘۔ عمران خان نے مزید کہا کہ جیسے ہی جوڈیشنل کمیشن اپنے کام شروع کرے ، نواز شریف کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔ ’’ جب تک نواز شریف وزیراعظم ہوں گے تب تک انصاف نہیں مل سکتا‘‘۔
پاکستان میں عام تاثر ہے کہ عمران خان کے غیر مصالحانہ رویے نے حکومت کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ عمران خان اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کو فوج کے چند اعلٰی افسران کی پشت پناہی حاصل ہے اور یہ افسران جمہوری حکومت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ فوج کو ناپسند پالیسیوں کو نہ اپنائے۔
عمران خان ان الزامات کو رد کرتے ہیں جبکہ عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ وہ سیاست میں دخل اندازی نہیں کر رہی۔ اسلام آباد حکومت اور فوج کے مابین تعلقات گزشتہ برس اُس وقت کشیدہ ہوئے تھے جب شریف انتظامیہ نے سابق صدر اور فوجی سربراہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا تھا۔
نواز شریف کے برسراقتدار آنے کے بعد سے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر سات ارب سے چودہ ارب تک پہنچ گئے ہیں جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بھی مستحکم ہو گئی ہے۔
عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے کا کہنا ہے کہ وہ ماہرین اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک عبوری قومی حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔ ان کی جانب سے اعلان بھی کیا گیا ہے کہ 14 اگست کو اِن دونوں کے لانگ مارچ ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں گے۔