حکومت کو عمران خان کی تقریروں پرسے پابندی کیوں ہٹانا پڑی؟
6 نومبر 2022
پابندی لگائی بھی، ہٹائی بھی
یاد رہے صرف ایک دن پہلے پیمرا نے کہا تھا کہ عمران خان کی ریکارڈ تقریر بھی نشر نہیں کی جا سکتی۔ اس کے حکم نامے میں عمران خان کی مختلف تقاریر اور پریس کانفرنسوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 'ملکی اداروں اور ریاستی اداروں کے خلاف بلاجواز نفرت انگیز، تہمت آمیز اور توہین آمیز بیانات نشر کرنا سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے لیکن جرم کی بیان کردہ اس سنگینی کے باوجود اس حکم نامے کے کچھ ہی دیر بعد وفاقی حکومت نے پیمرا کو عمران خان پر سے یہ پابندی فوری طور پر ہٹانے کی ہدایت کی تھی۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی کی تاریخ میں سیاست دانوں پر ایسی پابندیوں کا لگنا کوئی نئی بات نہیں لیکن جس طرح سے اس پابندی کو واپس لیا گیا ہے اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ یہ پیش رفت بہت سے سیاسی مبصرین کی حیرت میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ ان کے مطابق اس صورت حال سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ پیمرا کو طاقت کے دو مختلف مراکز سے ہدایات مل رہی ہوں۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس صورتحال پر کسی شرمندی کا اظہار کیے بغیر کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے (اس پابندی کا خاتمہ کرکے)عمران خان کے دور کی تلخ روایات ختم کرکے نئی روایت قائم کی ہے۔ اور وہ جمہوری اصولوں، اظہار رائے کی دستوری آزادیوں پر یقین رکھتے ہیں۔
کیا حکومت فیصلہ سازی کی صلاحیت سے محروم ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اعجاز احمد چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موجودہ حکومت چوں چوں کا مربہ ہے۔ انہیں صورتحال کی سمجھ نہیں آ رہی وہ افراتفری میں ایک فیصلہ کرتے ہیں پھر اپنے ہی فیصلے پر نظر ثانی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ''انہیں یہ حقیقت تسلیم کرنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ پاکستان بدل رہا ہے اور پاکستانی نوجوانوں کو ملنے والے حقیقی آزادی کے شعور نے سوشل میڈیا پر وہ دباؤ پیدا کیا جس کی وجہ سے حکومت پسپا ہونے پر مجبور ہوئی۔‘‘
اعجاز چوہدری سمجھتے ہیں کہ امپورٹڈ حکومت کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے اور اس حوالے سے حکومت اور اداروں میں بھی ایک سے زائد آرا پائی جاتی ہیں۔
پیمرا کے افسروں،قانون کے ماہروں ، صحافیوں ، سیاسی رہنماؤں ، سابق چئیرمین پیمرا اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت ایک درجن سے زائد افراد سے گفتگو کے بعد ڈی ڈبلیو کو معلوم ہوا ہے کہ حکومت کئی وجوہات کی بنا پر عمران خان کے مین سٹریم میڈیا پر بین ہٹانے پر مجبور ہوئی ہے۔
عمران خان کی توہین عدالت کے مقدمے میں طلبی
عمران پر پابندی ایک بے فائدہ عمل
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ عمران پر پابندی لگانے کا فیصلہ سول حکومت کا نہیں تھا اور انہیں بتایا گیا کہ طاقتور سوشل میڈیا کی موجودگی میں اس پابندی کا فیصلہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔ حکومت میں موجود قانونی ماہرین کا خیال تھا کہ اس فیصلے کو عدالتیں ختم کر سکتی ہیں اور اس صورت میں حکومت کی سبکی ہوگی۔ ایک یہ رائے بھی حکومت تک پہنچائی گئی کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ایک اہم غیر ملکی دورے سے پہلے پاکستان میں میڈیا پر پابندیوں کے نتیجے میں بیرونی دنیا میں بہت برا پیغام جائے گا۔
با اثر ٹی وی چینلز مالکان کا کردار
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ چند بڑے ٹی وی چینلز کے با اثر مالکان نے بھی وزیر اعظم سے ہنگامی طور پر رابطہ کر کے انہیں بتایا کہ مین سٹریم میڈیا پر پابندیوں کے باعث لوگ فوری اور درست خبر کے لیے سوشل میڈیا کی طرف جا رہے ہیں۔ مقامی ٹی وی چینلز پر اپوزیشن کے رہنماؤں کے بیانات پر پابندی سے نشر کرنے کے لیے صرف یک طرفہ سرکاری موقف رہ جائے گا جسے کوئی بھی نہیں دیکھے گا انہوں نے واضح کیا کہ اس سے اس تاثر کو بھی تقویت ملے گی کہ حکومت کے پاس عمران خان کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے دلائل نہیں ہیں۔ وزیراعظم کے ایک قریبی مشیر نے بھی پابندی ہٹا کر عمران خان کو سیاسی طور پر جواب دینے کا مشورہ دیا تھا۔
اے پی سی، نواز شریف کی تقریر موضوعِ بحث
ٹی وی چینلز کی مجبوریاں
پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار اور ایک مقامی نجی ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوزمحمد عثمان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں اس تاثر کی تصدیق کی کہ عمران خان کے ٹی وی پر آنے سے ٹی وی چینلز کی ریٹنگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان کے مطابق کئی ٹی وی چینلز اور یو ٹیوب چینلز نے عمران خان کے بیانیے کو سپورٹ کرکے اپنی ریٹنگ بہتر بنائی ہے۔ یاد رہے ٹی وی کی بہتر ریٹنگ والی نشریات کا ٹی وی کو ملنے والے اشتہارات کی آمدن سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہےِ؟
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد عثمان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی تقاریر پر پابندی کا فیصلہ میڈیا کی تنظیموں کے مطالبے پر واپس ہوا۔ محمد عثمان سمجھتے ہیں کہ میڈیا پر پابندیاں مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ ''اس مسئلے کے حل کے لیے میڈیا مالکان، صحافتی تنظیموں، سیاسی رہنماؤں سمیت سارے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے لائحہ عمل بنایا جانا چاہیے۔ ‘‘عمران خان کی تقریر کے بعد کشمیر میں پابندیاں مزید سخت کر دی گئیں
پی ٹی آئی کا اپنا ریکارڈ بھی درست نہیں
محمد عثمان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں سیاست دانوں کے بیانات نشر کرنے پر پابندیاں لگتی رہیں۔ مریم نواز شریف اور نواز شریف (ان کے بارے میں تو بعد ازاں عدالتی حکم بھی آ گیا تھا) کے بیانات نشر کرنے پر پابندی رہی۔ اسی طرح الطاف حسین کی تقاریر بھی ایسی پابندیوں کی زد میں رہی ہیں۔ ان کے بقول اس دور میں پابندیوں کے یہ احکامات زیادہ تر تحریری نہیں بلکہ زبانی دیے جاتے تھے۔ '' ابھی تازہ پابندی کا فیصلہ جس مواد کی بنیاد پر کیا گیا وہ تو بہت سے ٹی وی چینلز نے نشر ہی نہیں کیا تھا۔ وہ چینلز جو کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان سے تو باز پرس ہونی چاہیے لیکن سب کو سزا دینا کہاں کا انصاف ہے؟‘‘
یاد رہے پاکستان میں آئین کا آرٹیکل انیس شہریوں کو آزادی اظہار کا حق دیتا ہے لیکن قانونی ماہرین کے مطابق یہ حق ہر طرح کی بات کرنے کی آزادی نہیں دیتا بلکہ اس حق کو قانونی دائرے میں رہتے ہوئے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔