حکومت فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے: یونانی پارلیمنٹ
22 دسمبر 2015یونانی پارلیمنٹ کے صدر نکوس وُوٹسِس نے اعلان کیا ہے کہ پارلیمنٹ کے تمام اراکین نے اُس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا ہے، جس میں حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ فلسطین کو بطور ایک ریاست کے تسلیم کرے۔ وُوٹسس کے مطابق یہ قرارداد حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا عمل سہل ہو سکے اور خطے میں امن مذاکرات کا سلسلہ بحال ہو سکے۔ اِس قرارداد پر عمل کرنا لازمی نہیں بلکہ حکومت اپنی پالیسی کو جاری رکھ سکتی ہے۔
ایسی قراردادیں برطانیہ، آئرلینڈ اور فرانس کی پارلیمانی اداروں نے منظور کر رکھی ہیں لیکن حکومتوں نے فلسطین کو بطور ریاست ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس ان دنوں یونان کے دورے پر ہیں۔ گزشتہ روز ان سے یونانی وزیراعظم الیکسس سپراس نے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں یونانی وزیراعظم نے فلسطینی لیڈر پر واضح کیا کہ اُن کی حکومت اب اپنی دستاویزات پر فلسطینی اتھارٹی کو ترک کر کے صرف ’فلسطین‘ استعمال کیا کرے گی۔ ملاقات کے موقع پر یونانی وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ عباس کے دورے سے فلسطینیوں اور یونانیوں کے ساتھ روایتی اور تاریخی تعلقات کو مزید استحکام حاصل ہو گا۔
الیکسس سپراس کا کہنا تھاکہ اُن کی حکومت مناسب وقت پر فلسطین کو بطور ریاست کے تسلیم کرنے کا اعلان کرے گی اور یہ فیصلہ اسرائیل اور عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں کیا جائے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ ماہ یونانی وزیراعظم نے اسرائیل کے دورے پر بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے علاوہ فلسطینی لیڈر سے بھی ملاقات کی تھی۔ یونانی اور اسرائیلی وزرائے اعظم اگلے مہینے میں دو مختلف مقامات یروشلم اور قبرص میں ملاقاتیں کرنے والے ہیں۔
دوسری جانب یونانی پارلیمنٹ کی جانب سے قرارداد کی منظوری کے بعد اسرائیل کی نائب وزیر خارجہ سپی ہوتوولی نے فوری طور پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے۔ ہوتوولی نے اپنے بیان میں کہا کہ محمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی یک طرفہ اقدامات کے ذریعے خود کو جس انداز میں تسلیم کروا رہے ہیں، اُس کی عملاً کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسرائیل کی خاتون نائب وزیر خارجہ کے مطابق ابومیزن (محمود عباس کی عرفیت) اشتعال انگیزی اور دہشت گردی کے لیے سرمایے کی فراہمی کو روکنے کے بجائے ایک ایسے راستے پر جا رہے ہیں، جس کی کوئی منزل نہیں ہے۔