حکومت مسلم مہاجرین کو ملک میں داخلے سے روکے، بلغارین کلیسا
26 ستمبر 2015جمعے کی شب آرتھوڈوکس کلیسا کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ مسلم مہاجرین کو ہر حال میں ملک میں داخلے سے روکا جانا چاہیے، کیوں کہ یہ صورت حال بالکل ویسی ہی جیسے کوئی بلغاریہ پر ’حملہ آور‘ ہو جائے۔
بلقان کی اس ریاست کو مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے مغربی اور شمالی یورپ پہنچنے کے لیے استعمال کیا، تاہم ان میں سے بہت سے بلغاریہ میں بھی رکے ہیں۔ شام، عراق اور افغانستان سمیت جنگ زدہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرین ترکی سے یونان اور پھر مقدونیہ سے سیربیا سے کروشیا کے ذریعے مغربی یورپ پہنچ رہے ہیں، تاہم ترکی سے بلغاریہ اور پھر سیربیا جانے والے مہاجرین کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔
آرتھوڈوکس کلیسا کی ویب سائٹ کے مطابق، ’ہم ان مہاجرین کی مدد کریں گے، جو ہماری سرزمین پر پہنچ چکے ہیں، مگر حکومت کو ہر حال میں یہ بات یقینی بنانا ہو گی کہ مزید مہاجرین ملک میں داخل نہ ہو پائیں۔‘
یہ بات اہم ہے کہ یورپی یونین کی رکن ریاست بلغاریہ کے آرتھوڈوکس کلیسا کا دعویٰ ہے کہ ملک کی 80 فیصد آبادی اس کی پیروکار ہے۔ کلیسا کے بیان کے مطابق، ’مہاجرین کا یہ بہاؤ کسی حملے جیسا ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مہاجرین کا مسئلہ ان کے ممالک ہی میں حل کیا جانا چاہیے، ’بلغاریہ کے عوام کسی اور کے پیدا کردہ مسائل کی قیمت اپنے ناپید ہوجانے کی صورت میں نہیں چکائیں گے۔‘
یہ بات اہم ہے کہ بلغاریہ کی آبادی کا 13 فیصد مسلم باشندوں پر مبنی ہے، جس میں زیادہ تر تعداد ترک نسل افراد کی ہے۔ تاہم بلغاریہ پر الزام رہا ہے کہ اس نے سن 1989ء میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے تک مسلم باشندوں کی نسل کشی کی۔ اس دوران ساڑھے تین لاکھ سے زائد مسلم باشندوں نے بلغاریہ سے فرار ہو کر ترکی میں پناہ لی تھی، جن میں سے قریب نصف ملک میں جمہوری نظامِ حکومت رائج ہونے پر واپس لوٹ چکے ہیں۔