حکومت کو گھر بھیجیں گے، مولانا فضل الرحمان
30 اکتوبر 2019ان کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ موجودہ حکمرانوں کے خلاف ہے اور وہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو گھر بھجوائیں گے،''ہم اسلام آباد پہنچ کر اپنے مطالبات پیش کریں گے اور حکومت کو عوام کی رائے کا احترام کرنا ہو گا۔ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو پھر ہمارے احتجاج کا اگلا مرحلہ بہت سخت ہو گا۔‘‘
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ کے حتمی نتائج کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ان کے بقول اب یہ مارچ ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے اور انہیں قوی امید ہے کہ ان کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔
بار بار پوچھے جانے کے باوجود مولانا فضل الرحمان نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ اسلام آباد جا کر ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ ان کے مطابق اگلے لائحہ عمل کا اعلان وہ اسلام آباد پہنچ کر ہی کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وہ میاں نواز شریف کی عیادت کے لیے ہسپتال جانا چاہتے تھے لیکن ان کے رابطہ کرنے پر انہیں معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں نے ان کی علالت اور علاج کے تقاضوں کے پیش نظر ملاقاتوں سے منع کر رکھا ہے۔
نئے انتخابات کے انعقاد اور وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کے مطالبات کے ساتھ کراچی سے شروع کیا جانے والا یہ مارچ منگل اور بدھ کی درمیانی رات لاہور پہنچا تھا۔ لاہور پہنچنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کی طرف سے آزادی مارچ کے شرکاء کا استقبال کیا گیا۔ ان کے لیے استقبالیہ کیمپ لگائے گئے اور ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔
آزادی مارچ کی قیادت کرنے والے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے لاہور میں وحدت روڈ پر واقع ایک سرکاری سکول کی مسجد کے امام کے گھر پر قیام کیا جبکہ قافلے کے دیگر شرکاء نے گریٹر اقبال پارک میں لگائے گئے کیمپ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں رات بسر کی۔
سندھ سے آئے ہوئے قافلے کے بعض شرکاء نے تاریخی عمارات کی سیر بھی کی۔ آزادی مارچ کے قافلے میں شامل سینکڑوں گاڑیاں اس وقت اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہیں۔ قافلے کے شرکاء نے جمیعت العلمائے اسلام کے پرچم ہاتھوں میں اٹھا رکھے ہیں اور بڑے بڑے لاوڈ اسپیکروں پر آزادی مارچ کے ترانے گونج رہے ہیں۔ آزادی مارچ کی سکیورٹی کی ذمہ داری جے یو آئی کی ایک ذیلی تنظیم کے پاس ہے جس کے خاکی وردی میں ملبوس سینکڑوں ڈنڈا بردار نوجوان مولانا فضل الرحمان کے کنٹینر کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر آزادی مارچ کے استقبال کے لئے جگہ جگہ استقبالی کیمپ لگائے گئے ہیں۔ راستے میں استقبالیہ بینرز لگے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
آزادی مارچ کے کنٹینر پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزماں کائرہ، پروفیسر ساجد میر اور ابتسام الہی ظہیر بھی نظر آئے لیکن مسلم لیگ نون کا کوئی لیڈر اس وقت کنٹینر پر موجود نہیں ہے۔
آزادی مارچ کے کنٹینر پر ہونے والی ایک ہنگامی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مارچ کے شرکاء آج رات اسلام آباد نہیں پہنچیں گے بلکہ وہ رات گوجر خان میں گزاریں گے اور کل اسلام آباد جائیں گے۔
ادھر اسلام آباد کی وزارت داخلہ میں ہونے والے ایک اعلی سطحی اجلاس میں آزادی مارچ کے حوالے سے حکمت عملی فائنل کر لی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے مطابق نان کسٹم پیڈ گاڑیوں، اور اسلحہ بردار شرکاء کو اسلام آباد میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ شرکاء ریڈ زون میں بھی داخل نہیں ہو سکیں گے۔ امن و امان کی بحالی کے لیے پولیس اور رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ اہم عمارتوں کی سکیورٹی حساس اداروں کے سپرد کرنے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے۔