حکومتی تلوار ویلفیئر پروگرامز پر گرم: کئی حلقوں کی تنقید
20 جولائی 2022حکومت کے اس فیصلے پر کئی حلقوں کی طرف سے تنقید ہورہی ہے جب کہ پی ٹی آئی نے موجودہ حکومت کے اس فیصلے کوعوام دشمنی قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کچھ دنوں پہلے انگریزی روزنامہ دی نیوز میں ایک کالم میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ اس پروگرام کے تحت تقریباً 40 ملین یعنی چار کروڑ افراد نے رجسٹریشن کرائی تھی اور یہ کہ حکومت نے ایک ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر بھی تیار کر لیا تھا تاکہ صرف مستحق افراد کو تصدیق کے بعد راشن کے حوالے سے سبسڈی دی جائے۔
حکومت کے اس اقدام پر صرف پی ٹی آئی کی طرف سے ہی تنقید نہیں ہورہی ہے بلکہ ڈویلپمنٹ سیکٹر سے وابستہ افراد بھی شہباز شریف کی حکومت کو اس معاملے پر ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ سابق نگراں احساس پروگرام ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اپنے آرٹیکل میں یہ بھی انکشاف کیا کہ حکومت نے راشن سبسڈی کی مد میں صرف 16 ارب روپے مختص کیے ہیں جو یوٹیلٹی اسٹور کے ذریعے عوام تک پہنچائے جائیں گے جبکہ پی ٹی آئی حکومت ایک سو بیس ارب روپے مختص کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یوٹیلٹی اسٹورز یہ سہولت کسی ڈیجیٹل تصدیق کے بغیر دیں گے۔
احساس پروگرام کے تحت رقوم کی ادائیگیوں کا آغاز
ڈیٹا استعمال کیا جانا چاہیے
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین، جن کی ڈیولیپمنٹ سیکٹر سے متعلق امور پر گہری نظر ہے، کا کہنا ہے کہ حکومت کو کو وہ ڈیٹا استعمال کرنا چاہیے جو گزشتہ حکومت نے احساس راشن رعایت پروگرام کے لیے جمع کیا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ، ''یہ ڈیٹا نیشنل سوشیو اکنامک رجسٹری کے تحت اکٹھا کیا گیا اور اس میں اربوں روپے خرچ ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں افراد قوت نے اس میں حصہ لیا۔
عامر حسین کے بقول اس میں گھر گھرجا کر ڈیٹا جمع کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ملک میں انتہائی غریب افراد کہاں کہاں رہتے ہیں اور 'فوڈ ان سکیورٹی‘ اور مالی مسائل سے کیسے بچایا جائے۔
عامر حسین کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس ڈیٹا کو استعمال کرنا چاہیے اور سبسڈی کو ٹارگٹ کرنا چاہیے تاکہ اس سے عام آدمی کو فائدہ ہو۔ ''اگر سبسڈی عمومی ہوتی ہے تو اس سے عام آدمی کو فائدہ نہیں ہوتا۔‘‘
احساس پروگرام سے ماضی میں وابستہ رہنے والے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''اس پروگرام کو ختم کر حکومت نے عمومی سبسڈی شروع کر دی ہے، جس سے غریب آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یوٹیلیٹی اسٹور پر وہ شخص بھی جا سکتا ہے، جس کے پاس دو لاکھ روپے ہونگے اور وہاں کوئی تصدیق یا جانچ کا نظام نہیں ہے۔‘‘
اس عہدیدار کے مطابق اگر حکومت نے اپنے احساس راشن پروگرام کے حوالے سے فنڈز کم کیے ہیں تو یقینا اس کا یہ مطلب ہے کہ پہلے کے مقابلے میں بہت کم افراد کو یہ سبسڈی ملے گی، جس میں غریبوں میں خوراک کی عدم دستیابی یا خوراک کی کمی کا مسئلہ مزید طول پکڑ لے گا اور صحت کے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ ''بالکل اسی طرح تعلیم، صحت اور مالی امداد کے حوالے سے بھی غریب لوگ متاثر ہوں گے۔‘‘
یہ عوام دشمنی ہے
پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ حکومتی اقدام عوام دشمنی پر مبنی ہے۔
پارٹی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت نے صحت کارڈ پروگرام تو تقریباً ختم ہی کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم میں پی ٹی آئی کی حکومت جو رعایتیں دے رہی تھی حکومت نے وہ بھی ختم کر دی ہیں۔ سیاسی طور پرانہوں نے نیب کو ختم کر دیا ہے اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ سے محروم کردیا ہے۔ اب حکومت پی ٹی آئی کے فلاحی پروگرامز کو ختم کر رہی ہے، جو عوام دشمنی ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے متعدد بار بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ شازیہ مری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔