خاتون جج کی نامزدگی پر فخر ہے، افغان صدر غنی
30 جون 2015افغان صدر کی جانب سے ایک خاتون قانون دان کو ملکی سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ میں نامزدگی انیسہ رسولی کو حاصل ہوئی ہے۔ خاتون جج افغان خواتین ججز ایسوسی ایشن کی سربراہ ہیں اور اِس سے قبل بچوں کی ایک عدالت کی جج رہ چکی ہیں۔ افغانستان کی سب سے بڑی عدالت میں بطور جج نامزد کی جانے والی وہ پہلی افغان خاتون ہیں۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اشرف غنی کے اِس فیصلے کے خلاف قدامت پسند مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ناراضی کا اظہار اور ردِعمل سامنے آ سکتا ہے۔ رواں برس جون کے اوائل میں سپریم کورٹ میں ممکنہ جج کی نامزدگی کے خلاف مذہبی حلقے احتجاج کر چکے ہیں۔
اِس نامزدگی کے اعلان کے وقت حقوقِ نسواں اور انسانی حقوق کے سرگرم اراکین کے علاوہ کابل میں متعین کئی غیر ملکی سفارتکار بھی خصوصی تقریب میں موجود تھے۔ اِن کے سامنے افغان صدر نے کہا کہ وہ ملکی سپریم کورٹ میں ایک خاتون کی بطور جج نامزدگی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اشرف غنی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں خاتون جج کی تعینانی سے ملکی عدالتی نظام ہر گز متاثر نہیں ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اِس فیصلے میں انہیں اسلامی علماء کی حمایت بھی حاصل ہے۔
صدر اشرف غنی اور کابل حکومت کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی یونٹی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ خواتین کو ملک کے اعلیٰ عہدوں پر بتدریج فائز کیا جائے۔ رواں برس اپریل میں ملکی پارلیمان نے غنی کے جِن وزراء کی منظور دی تھی، اُن میں کم از کم چار خواتین شامل ہیں۔ اسی طرح سپریم کورٹ کی نامزد جج انیسہ رسولی کی حتمی منظوری بھی پارلیمنٹ کے اجلاس میں دی جائے گی۔ اِسی منظوری کے بعد وہ اپنے منصب کا حلف اٹھا سکیں گی۔ افغان دستور میں سپریم کورٹ کے جج کی مدت دس برس مقرر ہے۔
تعلیم کے میدان سے وابستہ رہنے والے سابق ورلڈ بینک کے اکانومسٹ افغان صدر اپنے ملک کے دو صوبوں غور اور دائیکُنڈی کی گورنری بھی دو خواتین کو تفویض کر چکے ہیں۔ اُن کے اِن فیصلوں کی پذیرائی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے حلقوں کی جانب سے سامنے آ چکی ہے۔ غنی نے حال ہی میں کہا تھا کہ کاش وہ تمام وزارتوں میں جونیئر وزرا کے طور پر خواتین کی تعیناتی کر سکتے۔ اُن کی اِس خواش کے سامنے قدامت پسند ملک کے جید علماء کی مخالفت دیوار بن کر کھڑی ہو گئی تھی۔