پنجاب اسمبلی کے دروازے اپوزیشن ارکان کے لیے بند
7 اپریل 2022پنجاب اسمبلی میں میڈیا کا داخلہ بند ہے۔ ایوان کے دروازوں کو تالے لگا کر بند کر دیا گیا ہے اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کو بھی عمارت میں داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر لاہور کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے اطراف میں 500 میٹر کے فاصلے تک دفعہ 144 بھی لگا دی گئی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ کچھ مزید وقت حاصل کرکے وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب میں حکومتی امیدوارچوہدری پرویز الٰہی کے حق میں مطلوبہ 186 ارکان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب اسمبلی میں وزیراعلٰی کا انتخاب تین اپریل کو ہونا تھا مگر حکومتی امیدوار کے حق میں نمبر پورے نہ ہو سکنے کی وجہ سے حکومتی ارکان کی طرف سے شروع کیے جانے والے ایک معمولی جھگڑے کو وجہ بنا کر اجلاس شروع ہونے کے چھ منٹ بعد ہی چھ اپریل تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا، بعد ازاں اس اجلاس کی تاریخ مزید بڑھا کر سولہ اپریل کر دی گئی۔
گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد خان مزاری نے وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے اجلاس بلانے کی کوشش کی تو مسلم لیگ )ق( اور تحریک انصاف نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا اور حکومت نے اپنے ہی ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔
اس موقعے پر پنجاب اسمبلی کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکرکے خلاف جب عدم اعتماد آچکی ہوتووہ کسی اجلاس کی صدارت نہیں کرسکتے،ان کے بقول آئینی طورپرڈپٹی اسپیکرکسی بھی اجلاس کی صدارت کے مجازنہیں اور اگر ڈپٹی اسپیکر اجلاس کی صدارت کریں گے تووہ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔ دوسری طرف ڈپٹی اسپیکر دوست محمد خان مزاری کا اصرار تھا کہ وہ قانونی طور پر اجلاس کی صدارت کر سکتے ہیں کیونکہ یہ اجلاس ان کے نہیں بلکہ وزیراعلی کے انتخاب کے حوالے سے منعقد ہونے جا رہا ہے۔
تحریک عدم اعتماد: عدالت کا فیصلہ کس کے حق میں ہو سکتا ہے؟
بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کے بقول یہ صورتحال خاصی دلچسپ ہے کہ قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر ماورائے قانون اجلاس ملتوی کرتے ہیں تو حکومت انہیں محب وطن اور قانون کا پاسبان سمجھتی ہے دوسرے طرف پنجاب اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر آئین کے مطابق اجلاس بلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ جاتی ہے۔
شدید کشیدگی والے ان حالات میں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت مختلف اپوزیشن جماعتوں کے 199 ارکان نے پنجاب اسمبلی کے نواح میں واقع ایک ہوٹل میں علامتی اجلاس منعقد کیا ۔ اس ہوٹل کے ایک بڑے ہال میں ممبران اور رنماؤں کی نشستوں کے علاوہ اسمبلی کے ایوان کی طرز پر پریس گیلری کی نشستیں بھی رکھی گئی تھیں۔
اس علامتی اجلاس میں اپوزیشن اتحاد، جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان گروپ کے ارکان بھی شریک ہوئے۔ علامتی اجلاس میں حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ منتخب کرنے کی قرارداد پیش کی گئی جس پرارکان نے کھڑے ہو کر قرارداد کی منظوری دی۔ قرارداد پاس ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزارت اعلیٰ پنجاب کے نامزد امیدوارچوہدری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی نے اپنے طنزیہ ٹوئٹ پیغام میں لکھا 'فلیٹیز ہوٹل‘ کا وزیراعلیٰ بننے پر حمزہ شہباز کو مبارک ہو۔
لاہور کے مقامی ہوٹل میں ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اس اجلاس کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں خاتون اول بشریٰ بی بی کی دوست فرح خان کے سسر اور) ن ( لیگ کے رکن پنجاب اسمبلی چوہدری اقبال گجر بھی شریک ہوئے۔ چوہدری اقبال گجرنے ہی اجلاس میں نئے وزیراعلیٰ کےانتخاب کے لیے قرارداد پیش کی جسے 199 ارکان نے کھڑے ہوکر منظور کیا۔ پنجاب اسمبلی کے باہر جب مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق سے سوال کیا گیا کہ جن لوگوں کو آپ آٹا چور اور چینی چور کہتے تھے وہ اب آ کر آپ کی صفوں میں بیٹھ گئے ہیں کیا وہ اب پاک صاف ہو گئے ہیں اس پر ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اصل بحران کے ذمہ دار عمران خان ہیں ۔ انہوں نے اپنے طرزعمل سے جن لوگوں کو ناراض کیا انہوں نے ہمارے موقف کی تائید کی ۔ آپ اس پر جو مرضی کہیں۔ یہ معاملہ نمبر گیم کا ہے ہم نے نمبر تو پورے کرنے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ نومنتخب علامتی وزیراعلٰی حمزہ شہباز کرپشن کے مقدمے میں ضمانت پر ہیں اور ان کے والد گرامی جو پاکستان میں وزارت عظمٰی کے مضبوط امیدوار ہیں وہ بھی کرپشن کے مقدمے میں ضمانت پر ہیں۔
علامتی وزیر اعلٰی منتخب ہونے کے بعد اپنی تقریر میں حمزہ شہباز نے چوہدری پرویز الٰہی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پنجاب اسمبلی کو تو سیل کر سکتے ہیں لیکن آپ ارکان اسمبلی کے ضمیروں کو سیل نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ چوہدری پرویز الہٰی کو اپنے غیر قانونی اورآئین سے ماورا اقدامات کا حساب ضرور دینا ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ماورائے آئین اقدامات کے نتائج بہت سنگین ہوں گے اور اگر جمہوریت کی گاڑی کو روکا گیا تو پھر معاشی بہتری کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ اس سے قبل مریم نواز بھی حمزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے مقامی ہوٹل پہنچی تھیں۔ اس دوران انہوں نے بس میں بھی ارکان اسمبلی کے ہمراہ سفر کیا اور اجلاس کے طے شدہ مقام یعنی ہوٹل گئیں۔