خاشقجی کا قتل، پانچ افراد کے لیے سزائے موت کی درخواست
15 نومبر 2018سعودی حکومت کو جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے عالمی سطح پر شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ امریکا، ترکی اور یورپی ممالک کا مطالبہ ہے کہ خاشقجی کے قتل کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ خاشقجی کو پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت قتل کیا گیا اور یہ کہ امریکا میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے خاشقجی کو سعودی کی اعلیٰ قیادت کے ایما پر قتل کیا گیا۔
آج جمعرات 15 اکتوبر کو سعودی درالحکومت ریاض میں ایک پریس کانفرنس کے دوران سعودی استغاثہ کی طرف سے بتایا گیا کہ خاشقجی کے قتل کے الزام میں اب تک 21 افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے 11 کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش کی گئی ہے۔
سعودی عرب کے دفتر استغاثہ کے نائب سرہراہ شالان الشالان نے رپورٹر کو بتایا کہ دو اکتوبر کو خاشقجی ہاتھا پائی کے بعد ایک خطرناک انجیکشن لگائے جانے کے سبب مارے گئے۔ شالان کے مطابق خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے کر کے اسے قونصل خانے کی عمارت سے نکالا گیا اور اسے ٹھکانے لگائے کے لیے مقامی فرد کے حوالے کر دیا گیا جس کی شناخت کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
سعودی استغاثہ کے نائب شالان الشالان کے مطابق سعودی عرب سے ایک ٹیم اسنتبول بھیجی گئی تھی تاکہ وہ خاشقجی کو زبردستی وطن واپس لا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کوشش جب کامیاب نہ ہو سکی تو مذاکرات کے لیے بھیجی گئی ٹیم کے سربراہ نے اس بناء پر ان کے قتل کا حکم دے دیا کہ انہیں زبردستی قونصل خانے سے باہر لے جانا ممکن نہیں ہو گا۔
استغاثہ کے مطابق اس قتل کے پیچھے اعلیٰ ترین اہلکار سابق نائب انٹیلیجنس سربراہ احمد الاسیری تھے جنہیں خاشقجی کو زبردستی وطن واپس لانے کا حکم دینے کے الزام میں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
دوسری طرف ترکی نے کہا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے سعودی بیان ’ناکافی‘ ہے۔ ترک حکام کی طرف سے اس بات کا بھی اصرار کیا گیا ہے کہ یہ قتل ’پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی‘ کے تحت کیا گیا۔ ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو کے مطابق سعودی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے قدم مثبت لیکن ناکافی ہیں۔ ریاض حکومت کے دفتر استغاثہ نے کہا ہے کہ خاشقجی کے قتل کے الزام میں پانچ سعودی اہلکاروں کے لیے سزائے موت کی درخواست کی گئی ہے۔
ا ب ا / ع ت (روئٹرز، ڈی پی اے)