1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خانہ بدوش ثقافت

18 ستمبر 2022

تاریخ میں چین، وسطی ایشیا، خراساں، کوہ قاف سے لے کر فرانس، اٹلی، سپین اور جرمنی میں بکھرےقبائل کا زکر ملتا ہے۔ ان میں بہت سے قبائل خانہ بدوشی ترک کر کےمہذب دنیا میں شامل ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/4H1WG
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

کلچر کی کئی قسمیں ہوتی ہیں جو اپنے ماحول اور حالات کے تحت تشکیل پاتی ہیں۔ قبائل اور برادریاں جو بڑی بڑی تہذیبوں سے کٹ کر علیحدہ ہو جاتی ہیں وہ اپنے محدود دائرے میں ضرورتوں کے تحت رسم و رواج کی پابندی کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔

غذا اور شکار کے عہد کے بعد جب کچھ قبائل نے زراعت اختیار کرتے ہوئے آبادیاں بسائیں اور مستقل رہائش اختیار کر لی، لیکن بہت سے ایسے قبائل بھی تھے، جنہوں نے خانہ بدوشی کی زندگی ترک نہیں کی۔ انہوں نے نہ تو آبادیاں میں رہنا پسند کیا اور نہ ہی اپنا خانہ بدوشی کا کلچر چھوڑ کر خود کو بڑی تہذیبوں میں ضم کیا۔ اس وجہ سے خانہ بدوشوں اور آبادیوں میں رہنے والوں میں ہمیشہ سے کلچر اور تہذیب کے درمیان تصادم رہا۔ آبادیوں کا رخ کرنے والے قبائل نے ان خانہ بدوشوں کو بار بیرین یعنی وحشی کہا، لیکن ان کے بارے میں آرا بدلتی رہی ہیں۔ ابتداء میں بار بیرین کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا یہ سخت جنگجو اور خوفناک لوگ ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان میں اور مہذب لوگوں میں فرق ہے۔ مہذب قوموں کے مقابلے میں باربیرین کا کلچر کم تر اور پست ہے۔ جب قوموں نے بڑے مذاہب کو اختیار کیا جن میں عیسائیت اور اسلام قابل ذکر ہیں۔ اس دور میں باربیرین کو پگان کہہ کر تہذیب سے خارج کر دیا گیا، لیکن 17ویں صدی میں جب روشن خیالی کا دور آیا تو ان خانہ بدوش لوگوں کے بارے میں دانش وروں کی رومانوی آراء قائم ہوئیں اور انہیں Nobal Savage (یعنی شریف وحشی) کہا جانے لگا۔

تاریخ میں ایک تو ان خانہ بدوش لوگوں کا ذکر ہے جو چین، وسطی ایشیا، خراساں اور کوہ قاف تک پھیلے ہوئے تھے۔ دوسرے وہ قبائل تھے جو فرانس، اٹلی، سپین اور جرمنی میں بکھرے ہوئے تھے۔ یہ قبائل بڑی سلطنتوں کے لئے خطرے کا باعث ہوتے تھےکیونکہ یہ بڑی سلطنتوں کی سرحدوں پر لوٹ مار اور قتل و غارت کرتے تھے۔ اس لئے جب ہندوستان میں موریہ سلطنت قائم ہوئی تو چندر گپت کے مشیر کوٹلیا نے اسے مشورہ دیا کہ ہر صورت میں چاہے دھوکہ ہو یا فریب ان قبائل کو جو سلطنتوں میں شامل نہیں ہیں انہیں اپنی حکومت کاحصہ بنائے۔ رومی سلطنت میں بھی مسلسل جرمن قبائل گال، کیلٹ اور وندلز سے جنگیں لڑیں، لیکن ان کی آزادی ختم کرکے ان کو سلطنت میں شامل کیا جائے۔ چین کے ہان خاندان نے شن نو اور دوسرے قبائل کے حملوں کو روکنے کے لئے تین طریقے استعمال کیے۔ دیوار چین کی تعمیر مکمل کرائی، تاکہ ان کے حملوں کو روکا جا سکے۔ ان کے ساتھ جنگیں لڑیں اور آخر میں یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ جنگوں کے اخراجات بہت ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں تحفے تحائف دے کر اور شاہی خاندان کی شہزادیوں سے شادیاں کروا کے دوست بنایا جائے، لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود چین اور خانہ بدوش قبائل کے تعلقات میں مصلحت نہیں آسکی۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خانہ بدوش قبائل کیوں اپنی آزادی پر قائم رہے اور اپنے کلچر کی بنیاد پر طاقتور اور جارح بنے رہے۔ ان قبائل نے جس کلچر کو فروغ دیا، اس میں ان کا مسلسل  سفر پر رہنا تھا جو انہیں  متحرک رکھتا تھا۔ دوران سفر  نئی چراگاہوں کی تلاش اور نیچر کے بارے میں نئے نئے تجربات ہوتے تھے۔ ان کے قبیلے کی تعداد بھی محدود ہوتی تھی اور یہ زیادہ بچے پیدا نہیں ہونے دیتے تھے۔ زراعت کے بجائے یہ مویشی پالتے تھے۔ ان ہی قبائل نے سب سے پہلے گھوڑے کو سدھایا تھا اور بعد میں انہوں نےگھوڑے کی باگ اور زین ایجاد کی تھی۔ اسی وجہ سے یہ گھڑ سواری میں ماہر ہو گئے تھے۔ گھڑ سواری کے ساتھ ساتھ انہوں نے مہلک تیر کمان بھی ایجاد کئے تھے اور گھوڑے کی پشت پر سوار رہتے ہوئے دشمن پر تیروں کی بارش کرتے تھے۔ یہ گھوڑے کا گوشت بھی کھاتے تھے اور گھوڑی کے دودھ کی بنی شراب بھی پیتے تھے جو کومش کہلاتی تھی۔ ان کی عورتیں بھی ان کے ساتھ نہ صرف جنگ میں شریک ہوتی تھیں، بلکہ سفر کرنے کے لئے گھوڑاگاڑیوں میں سامان بھی لادتی تھیں۔ انہیں قبائل نے آگے چل کر رتھ کی ایجاد کی تھی۔ جس کی وجہ سے جنگوں میں رتھ کے استعمال نے انہیں جنگوں میں فوقیت دی تھی۔

چونکہ یہ نہ تو ایک جگہ آباد رہتے تھے، نہ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ اس لئے روز مرہ کی غذا میں دودھ دہی وغیرہ شامل تھا اور جب ان کا گزارا نہیں ہوتا تھا تو یہ آبادیوں میں لوٹ مار کرکے لوگوں کا قتل عام بھی کرتے۔ ان میں سے وہ قبائل جو شاہراہ ریشم کے راستے پر آتے جاتے رہتے تھے،وہ پرامن رہنے کے لئے چین جانے والے تاجروں سے معاوضہ طلب کرتے تھے۔ ازبکستان کے خانہ بدوشوں نے مشہور دوکوہان والے اونٹ کو سدھایا تھا جو سامان تجارت لے کر چین تک جاتا تھا۔

لیکن وہ قبائل جو کسی بڑی سلطنت کا حصہ ہو گئے یا انہوں نے خود بڑی حکومتیں قائم کر لیں تو وہ اپنے خانہ بدوشی کے کلچر سے نکل کر مہذب دنیا میں شامل ہو گئے۔ جیسے کشن قبیلہ جو چین سے آیا تھا اس نے ازبکستان، افغانستان اور ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی، اسی طرح س سلجوقوں اور عثمانی ترکوں نے فتوحات کے ذریعے بڑی سلطنتوں کی بنیاد ڈالی۔ 12ویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کی راہنمائی میں متحد ہونے والے منگولوں نے چین وسطی ایشیا، ایران اور عراق تک اپنا اقتدار پھیلایا اور بالآخر ان کی یہ پھیلی ہوئی سلطنت آہستہ آہستہ زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور یہ خود بڑی تہذیبوں میں ضم ہو گئے۔ اسی طرح جیسے رومی سلطنت کی جنگیں  اسلام اور بدھ مت، فرانس، جرمنی، اٹلی، سپین اور شمالی افریقہ کے خانہ بدوشوں سے مسلسل ہوتی رہیں اور بالآخر سلطنت روما کو جرمن قبائل کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

ایک اہم خانہ بدوش قبیلہ ہویتوں کا ہے جو تاریخ کے تمام نشیب و فراز کے باوجود اپنی آزادانہ شناخت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستان سے نکل کر مشرقی یورپ گئے اور رومانیہ میں طویل قیام کی وجہ سے ان کی زبان کو روما کہا جاتا ہے۔ ابتداء میں یہ بیل گاڑیوں میں سفر کرتے تھے، لیکن اب کاروان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ یہ تقریباً یورپ کے ہر ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، لیکن حکومتوں کی کوششوں کے باوجود مستقل رہائش اختیار نہیں کی، چونکہ یہ عام لوگوں سے علیحدہ رہتے ہیں اس لئے ان کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں شامل ہیں اور انہیں شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پروشیاء کے حکمران فریڈرک دوئم  نے یہ حکم دیا تھا کہ ہر سولہ سال کے جپسی یعنی خانہ بدوش کو پھانسی دے دی جائے۔ جب جرمنی میں نازی پارٹی اقتدار میں آئی تو اس نے بھی انہیں آریا نسل کی پاکیزگی کے لئے خطرہ سمجھا اور انہیں کنسنٹریشن (Concentration) کیمپ میں گیس چیمبرز کے زریعے قتل کروایا۔

جپسی لوگ پرامن خانہ بدوش ہیں۔ یہ لڑائی اور جنگوں سے دور رہتے ہیں۔ ان کی روزی کا ذریعہ یہ ہے کہ جہاں کہیں ان کا میلہ لگتا ہے وہاں یہ لوگوں کی قسمت کا حال بتاتے ہیں اور اپنی بنائی ہوئی چیزیں جیسے ٹوکریاں یا نقش و نگار والے کپڑے فروخت کرتے ہیں۔ یہ جپسی امریکہ تک بھی پہنچ گئے ہیں، لیکن وہاں بھی خانہ بدوش ہی ہیں۔

خانہ بدوشوں کا ایک اور اہم طبقہ بنجاروں کا تھا۔ یہ گاؤں دیہاتوں سے اناج لے کر قصبوں اور شہروں میں اس کی سپلائی کرتے تھے۔ نظیر آبادی کی مشہور نظم ''بنجارہ نامہ‘‘ میں ان اشیاء کی مکمل تفصیل ہے۔ جن کی یہ تجارت کرتے تھے۔ ان کی تجارت کاخاتمہ اس وقت ہوا جب ہندوستان میں ریلوے آئی اور اب گڈز ٹرین کے ذریعے سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے لگا۔

اگرچہ اب خانہ بدوشوں کی وہ قسمیں تو نہیں رہی جو عہدوسطیٰ میں تھیں، لیکن اب بھی ہندوستان اور پاکستان میں خانہ بدوش موجود ہیں جوشہروں کے حاشیوں پر رہتے ہیں۔ ہندوستان میں ادی واسی ہیں جو جنگلوں اور پہاڑوں میں رہتے ہیں اور اپنے کلچر کی حفاظت کیے ہوئے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ان کا کلچر بھی ختم ہو رہا ہے اور یہ خود بھی یا تو آبادیوں میں گھل مل رہے ہیں یا علیحدہ رہتے ہوئے اپنی حیثیت اور شناخت کو کھو رہے ہیں۔