خانہ جنگی کے باعث شمالی عراق کا نقشہ بدل رہا ہے
27 اگست 2016عراقی شہر موصل میں زیر قبضہ جہادیوں کو پسپا کرنے کی خاطر نہ صرف عراقی فورسز فعال ہیں بلکہ ساتھ ہی کرد فوج اور دیگر مقامی شیعہ ملیشیا گروہ بھی متحرک ہیں۔ اگرچہ کرد اور عراقی فورسز دونوں ہی انتہا پسند گروہ داعش کے خلاف برسر پیکار ہیں لیکن ان دونوں کے مابین بھی کشیدگی پائی جاتی ہے۔
موصل شہر کے مشرقی علاقوں میں کرد انجنیئرز تین میٹر چوڑی اور بیس کلو میٹر طویل ایک خندق تیار کر رہے ہیں۔ ان فورسز نے حال ہی میں قرقشہ میں جہادیوں کو پسپا کر دیا تھا۔
موصل شہر کے قریب ہی واقع یہ مقام داعش کا ایک اہم گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ اب کرد فورس ’پیش مرگہ‘ اس مقام سے مزید آگے کی طرف عسکری کارروائی کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ جہادیوں کو شکست کے نتیجے میں کرد فورسز اور عراقی حکومت کے مابین ایک نئی کشیدگی جنم لے سکتی ہے کیوں کہ کرد حکام ایسے علاقوں کو اپنے زیر قبضہ لانا چاہتے ہیں جن پر کرد فورسز نے جہادیوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔
کرد ریجن کے خارجہ امور کے سربراہ فلاح مصطفیٰ نے بھی اصرار کیا ہے کہ جہادیوں کو شکست دینے کے بعد کرد فورسز ان علاقوں میں تعینات رہیں گی۔ امریکی فضائی مدد کے ساتھ کرد فورسز ایک بڑے عراقی حصے پر جہادیوں کو پسپا کر چکی ہیں۔
پیش مرگہ نے داعش کے خلاف پہلی کامیابی سن دو ہزار چودہ کے موسم گرما میں حاصل کی تھی، تب ان فورسز نے کرکوک کو جہادیوں سے آزاد کرایا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ خود مختار کرد حکومت کرکوک پر قبضے سے قبل بھی اس شہر پر پر اپنا حق جتاتے تھی۔ کرد فورسز کئی عراقی علاقوں میں داعش کے جہادیوں کو پسپا کرتے ہوئے وہاں اپنی فورسز تعینات کر چکی ہیں۔
قرقشہ پر کردوں کے قبضے کے بعد عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے کرد فورسز سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی پیش قدمی روک دیں۔
تاہم کردوں نے عراقی صدر کے اس مطالبے کو رد کر دیا تھا۔ کرد ریجن کی حکومت کے مطابق پیش مرگہ اس وقت تک جہادیوں کے خلاف اپنی پیش قدمی جاری رکھیں گی جب تک نینوا علاقے میں تمام کرد حصوں کو جہادیوں سے پاک نہیں کر دیا جاتا۔
کرد حکومت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ مستقبل میں جن علاقوں میں جہادیوں کو شکست دی جائے گی وہ علاقے کرد ریجن میں شمار کیے جائیں گے۔
دوسری طرف ہمسایہ ملک شام میں بھی خانہ جنگی کے باعث وہاں کے کرد بھی اپنی پوزیشن بہتر بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ شام میں کرد کمیونٹی ایک طویل عرصے سے مبینہ طور پر استحصال کا شکار تھی۔
تاہم اب شام میں مختلف جنگ جو گروہوں پر مشتمل YPG نامی فورسز نے کئی علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا ہے۔ شام میں فعال ان فورسز کو امریکا کی حمایت بھی حاصل ہے۔