ختنہ: قانون کے اعلان کے باوجود بحث جاری
10 اکتوبر 2012ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر اصل بحث تو شروع ہی اب ہو گی۔ لڑکوں کے ختنے کا موضوع ہمہ جہت ہے اور اس کا تعلق مذہبی روایات کے ساتھ ساتھ طبی، قانونی اور سیاسی پہلوؤں سے بھی ہے۔ بچوں کے تحفظ کی جرمن تنظیم کی مجلس عاملہ کے رکن کرسٹیان سائن ہوفر کے بقول ’ایک ساتھ بہت سے بنیادی حقوق کا معاملہ اس موضوع پر بحث کو مشکل بنا رہا ہے‘۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اُس مسودہ قانون کو ایک کامیاب مفاہمت قرار دیتے ہیں، جسے وفاقی جرمن حکومت آج دَس اکتوبر کو برلن میں منظور کرنے والی ہے۔ تاہم ڈاکٹروں کی تنظیمیں بدستور مزاحمت کر رہی ہیں۔
یہ ساری بحث اس سال مئی میں شروع ہوئی تھی، جب کولون کی ایک مقامی عدالت نے ایک چھوٹے لڑکے کے ختنوں کو ناقابل قبول جسمانی نقصان قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔ اس پر مسلمانوں اور یہودیوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور کہا گیا کہ اس سے اُن کی مذہبی آزادیاں محدود ہوتی ہیں۔
جرمن حکومت کے مجوزہ قانون میں آئندہ اس صورت میں لڑکوں کے ختنوں کی اجازت ہو گی کہ ’وہ باقاعدہ کسی ڈاکٹر کی نگرانی میں کیے جائیں‘۔ پیدائش کے بعد کے پہلے چھ مہینوں میں مذہبی برادری کا کوئی ماہر نمائندہ بھی یہ کام انجام دے سکے گا۔ اس اجازت کے مخاطب خاص طور پر یہودی شہری ہیں، جن کے ہاں لڑکوں کے ختنے اُس کی پیدائش کے آٹھویں روز کر دیے جاتے ہیں۔ مسلمان شہری اپنے لڑکوں کے ختنے اُن کی پیدائش کے چند سال بعد کسی ڈاکٹر سے کرواتے ہیں۔
تاہم جرمن ڈاکٹر اور اُن کی تنظیمیں ان رعایات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور اُن کا موقف یہ ہے کہ کسی طبی وجہ کے بغیر صرف مذہبی روایات کے تحت کسی بچے کے ختنے کروانا اُس کے جسم کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
بچوں کے تحفظ کی جرمن تنظیم کا کہنا ہے کہ چونکہ یہودی اور مسلمان شہری اپنے لڑکوں کے ختنوں کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ یہ کام ہر صورت میں کروائیں گے۔ جرمنی میں پابندی کی صورت میں وہ یا تو ملک سے باہر جا کر اپنے لڑکوں کے ختنے کروائیں گے یا یہی کام یہاں جرمنی میں رہتے ہوئے غیر قانونی طور پر کریں گے، جو بچوں کے لیے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
جرمنی میں لڑکوں کے ختنے کا ہر دسواں واقعہ مذہبی نہیں بلکہ طبی وجوہات کی بناء پر عمل میں آتا ہے۔ عالمی ادارہء صحت بھی ایڈز اور دیگر جنسی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے لڑکوں کے ختنوں کا حامی ہے۔
O.Kämper/aa/km