خلا سے ہم ماحولیات کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟
قریب ساٹھ برس قبل انسان نے خلا کے شعبے میں قدم رکھا۔ تب سے اب تک خلائی ٹیکنالوکی میں ڈرامائی جدت پیدا آئی ہے اور اس کی وجہ سے ماحول سے متعلق ہماری معلومات بھی بڑھی ہے۔
علم میں اضافہ
بیسویں صدی کے وسط تک خلا میں سیٹیلایٹ چھوڑے جانے سے قبل ہمیں اپنے ماحول سے متعلق بہت کم معلومات تھیں۔ آج ہم جمع ہونے والے ڈیٹا کے ذریعے اپنے بدلتے سیارے کی کہانی سمجھ سکتے ہیں۔ 1985ء میں انہی سیٹیلائیٹس کی مدد سے ہمیں اوزون کی تہہ میں ہوئے چھید سے متعلق معلومات ملی تھی۔
زمینی کا انتباہی نظام
بعض سیٹیلائیٹس ماحولیاتی تبدیلیوں پر نگاہ رکھتی ہیں، مثلاﹰ پگھلتی برف، سمندری سطح میں اضافہ اور حتیٰ کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی شرح۔ مثال کے طور پر جیسن تھری سیٹلائیٹ جسے سن 2016ء میں خلا میں بھیجا گیا، اس سلسلے کی جدید ترین سیٹلائیٹ ہے۔ یہ سمندری سطح میں اضافے پر نگاہ رکھتی ہی۔ اس سے حاصل ہونے والا ڈیٹا ماحولیاتی تبدیلیوں کے سمندروں پر اثرات کو سمجھنے میں کلیدی نوعیت کا ہے۔
مصروفِ عمل
خلائی ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسان کے ہاتھ نگرانی اور جائزے کے بہترین آلات آئے ہیں، جس سے جنگلات کی کٹوتی اور غیرقانونی طور پر مچھلیوں کے شکار حتیٰ کہ کسی مقام پر تیل کے رساؤ تک کی جانچ ہو سکتی ہے۔ محققین اس سے جان سکتے ہیں کہ کب اور کہاں ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
قدرتی آفات پر نگاہ
خلا میں موجود سیٹیلائٹس قدرتی آفات مثلاﹰ سمندری طوفان، جنگلاتی آگ اور سیلابوں سے متعلق اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔ ان کی مدد سے حاصل شدہ ڈیٹا متاثرہ علاقوں میں انسانوں کی مدد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ان سے کسی قدرتی آفت کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
خلائی باغ بانی
خلا میں پودے اگانے کے تجربات ہمیں نہایت مفید معلومات دے چکے ہیں۔ اس معلومات کو زمین پر پائیدار زراعت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر خلانورد دریافت کر چکے ہیں کہ کس طرح کم پانی استعمال کر کے سبزیاں اگائی جا سکتی ہیں۔ چین نے حال ہی میں چاند کے تاریک حصے پر کپاس کا بیج بو کر تاریخ رقم کی ہے۔ یہ معلومات مستقل کے کسانوں کے نہایت کام آئے گی۔
راکٹ کے دھوئیں کا مسئلہ
بدقسمتی سے خلائی ٹیکنالوجی کا ایک منفی پہلا بھی ہے۔ ہر بار جب راکٹ زمین سے روانہ کیا جاتا ہے تو ایندھن کی وجہ سے خارج ہونے والی گیس میں المونیا نامی کیمکل ہوتا ہے، جو ماحول کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔ خلائی تحقیقاتی ادارے اب ماحول دوست ایندھن پر تحقیق کر رہے ہیں۔
خلائی ملبہ
اس وقت زمین کے مدار میں قریب بیس ہزار ایسے ٹکڑے گردش کر رہے ہیں، جو مختلف راکٹ کی وجہ سے خلا میں پہنچے۔ ان میں اسکیو اور نٹ وغیرہ بھی شامل ہیں اور پرانے راکٹوں کا ملبہ بھی۔ گو کہ یہ زمین کے کرہء ہوائی سے باہر ہیں، مگر ان پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر یہ خلائی فضلہ بہت زیادہ کثیف ہو گیا تو سیٹیلائیٹس کے لیے نقصان کا باعث بنے گا۔