خلیجی ریاستیں اخوان المسلمون کی مخالف کیوں ہیں؟
14 ستمبر 2013تین جولائی کو مصر کے پہلے جمہوری صدر محمد مرسی کو ملکی فوج نے منصب صدارت سے فارغ کر کے حراست میں لے لیا تھا۔ اس کے بعد سے مصر سمیت متحدہ عرب امارات اور دوسری خلیجی ریاستوں میں اخوان المسلمون کے مبینہ حامیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہے۔ اِس آڑ میں ہر اُس شخص کو حراست میں لیا جا رہا ہے، جو خلیجی ریاستوں کے شاہی خاندانوں کے طرزِ حکومت کا مخالف خیال کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے ساتھ ساتھ مصر کو اِن ریاستوں کی جانب سے مالی امداد کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کی جانب سے قاہرہ کی نئی عبوری حکومت کو بارہ ارب امریکی ڈالر دینے کا وعدہ بھی سامنے آیا۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق خلیجی دنیا میں قطر ایک ایسی ریاست ہے جس نے مرسی حکومت کی حمایت کی تھی۔ دوسری خلیجی ریاستیں اس کوشش میں ہیں کہ مصر کی اس مذہبی و سیاسی تحریک کو اب قدم جمانے کا موقع نہ دیا جائے۔ خلیجی ریاستوں کے بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ اخوان المسلمون ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ ہے اور موجودہ کریک ڈاؤن سے یہ پوری طرح ختم نہیں بھی ہوتی تو بہت کمزور ہو کر رہ جائے گی۔
برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی میں خلیجی امور کے ماہر کرسٹوفر ڈیوڈسن کا کہنا ہے کہ مصر کی عبوری حکومت اور خلیجی ریاستوں کے درمیان یہ ایک طاقتور اتحاد ہے کیونکہ یہ دونوں اخوان المسلمون کو اپنا مشترکہ دشمن تصور کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خلیجی ریاستوں کے حکمران خاصے عرصے سے اخوان المسلمون کو ایک خطرہ قرار دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اب سعودی عرب میں حکمران شاہی خاندان جِسے وہابی عقائد کے علماء کی حمایت حاصل ہے، اخوان کے سیاسی اسلامی نظریات کو ایک چیلنج کے طور پر لیتے ہیں۔ عرب دنیا کے بعض ملکوں میں عرب اسپرنگ کے نام سے اٹھنے والی سیاسی بیداری کی تحریکوں کے پس پشت بھی اخوان المسلمون کو محسوس کیا جاتا ہے۔
دو ماہ قبل خلیجی ریاست دُبئی کی پولیس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل داہی خلفان تمیم نے کہا تھا کہ خلیجی امراء کے خلاف اخوان المسلمون ایک بین الاقوامی سازش کو ترتیب دینے میں مصروف ہے تا کہ اس علاقے کی دولت کو اپنے قبضے میں لے سکے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران داہی خلفان تمیم نے ٹویٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ سمندر سے خلیج تک ہر شخص اخوان المسلون سے نفرت کرتا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں چھ ماہ قبل دبئی کے ہوائی اڈے پر ٹرانزٹ کے لیے اترے ہوئے قطری نژاد عرب دانشور اور اخوان المسلمون کے حامی ڈاکٹر محمود الجیدہ کو حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ اپنے وطن قطر جا رہے تھے۔ وہ تب سے گرفتار ہیں اور ایک ماہ میں صرف ایک مرتبہ ان کی اپنے اہلخانہ سے ملاقات کروائی جاتی ہے۔ ان کے بیٹے حسن الجیدہ کا کہنا ہے کہ ان کے والد کے سیاسی نظریات سے کسی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور اب تک ان پر عائد الزامات سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔