خواتین بھی بشپ بن سکیں گی، چرچ آف انگلینڈ
15 جولائی 2014پیر کے روز چرچ آف انگلینڈ کی نیشنل اسمبلی، جسے جنرل سینیڈ کہا جاتا ہے، نے بھاری اکثریت کے ساتھ اس تاریخی مطالبے کو منظور کر لیا ہے جس کے تحت خواتین بھی بشپ بن سکیں گی۔ اس منظوری کے لیے اسمبلی کی دو تہائی اکثریت درکار تھی جو باآسانی حاصل ہو گئی۔ تین ایوانوں کے 351 ارکان نے اس تحریک کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس موقع پر صرف 72 ارکان نے اس کی مخالفت کی جب کہ 10 نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
کینٹربری کے آرچ بشپ جسٹین ویلبی نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ آج بیس سال پر محیط ایک عمل کی تکیمل ہوئی، جس کا آغاز خواتین کے پریسٹ مقرر کیے جانے سے ہوا تھا۔ انہوں نے اس تحریک کی مخالفت کرنے والے قدامت پسندوں سے کہا کہ وہ محبت اور برداشت سے کام لیں۔ ’’مجھے اس ووٹنگ کے نتائج سے انتہائی خوشی ہوئی ہے۔ مگر میں ان کے بھی جذبات سمجھ سکتا ہوں، جن کے لیے یہ نتیجہ مشکل ہے اور انہیں اس سے رنج ہوا ہے۔‘‘
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس حوالے سے اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ ’چرچ اور مسابقت کے اعتبار سے ایک عظیم دن ہے۔‘
اس تحریک کی مخالفت کرنے والوں کا اصرار تھا کہ خواتین کو چرچ میں اس حد تک اعلیٰ عہدہ دینا بائبل کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ان افراد کا کہنا تھا کہ چرچ کو سکیولر اخلاقیات سے دور رہنا چاہیے۔
اس تحریک کی مخالفت کرنے والی لورنا اشورتھ نے اس حوالے سے کہا کہ چرچ اب ایک نئے علاقے میں داخل ہو گئی ہے، ’’اس حوالے سے ہمیں آگے بڑھنا ہے تو مل کر کام کرنا ہو گا۔‘‘
واضح رہے کہ چرچ آف انگلینڈ مختلف مذہبی طبقات کی ترجمانی کرتا ہے، جس میں ایک طرف انتہائی قدامت پسند اوینگلکس ہیں تو دوسری جانب ہم جنس پرستوں کی شادی کے حامی بھی موجود ہیں۔
دو برس قبل ایسی ہی ایک تحریک بشپس اور کلیسا سے منظوری کے باوجود ارکان کی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی اور تحریک منظور نہ ہو پائی تھی۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق چرچ آف انگلینڈ میں موجود مختلف اور متنوع طبقات کی موجودگی کی وجہ سے کئی اہم مسائل کے حوالے سے چرچ میں تبدیلیوں میں کئی برس بلکہ کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔
دو برس قبل خواتین کو بشپ بنانے سے متعلق تحریک ناکام ہونے کے بعد کلیسا نے اپنے لے ارکان کے اعتبار حاصل کرنے کے لیے خاصا کام کیا اور اس حوالے سے قانون کو تمام افراد کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کی گئی۔ چرچ آف انگلینڈ پر بیرونی جانب سے گزشتہ کئی برسوں سے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ خواتین کی برابری کے لیے اقدامات اور اصلاحات کرے۔ واضح رہے کہ سن 1975ء میں اسی اسمبلی نے یہ ضابطہ منظور کیا تھا کہ خواتین کے پادری مقرر ہونے میں کوئی بنیادی مسئلہ نہیں، تاہم ان کے بشپ بننے کے حوالے سے اس قانون کی منظوری میں کئی دہائیاں لگ گئیں۔