خواتین پر تشدد کے خلاف اعلامیہ منظور
16 مارچ 2013یہ اتفاقِ رائے دو ہفتوں سے جاری اس اجتماع کے عین آخری لمحات میں عمل میں آیا۔ اس سے پہلے ایران، مصر، سعودی عرب، قطر، لیبیا اور سوڈان جیسے مسلمان ممالک ہی نہیں بلکہ روس اور ویٹی کن کی جانب سے بھی شدید مزاحمت دیکھنے میں آئی۔
اٹھارہ صفحات پر مشتمل اس اعلامیے میں ریاستوں کو اس امر کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا بھی اُسی طرح سے تحفظ کریں، جس طرح کہ وہ مردوں اور لڑکوں کے حقوق کا کرتی ہیں۔ اعلامیے میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
مسلمان ممالک اس اعلامیے کے سلسلے میں اس مضمون کا ایک استثنائی ضابطہ درج کروانے میں ناکام رہے کہ ’مخصوص ثقافتی حالات‘ کی بنیاد پر خواتین کے حقوق محدود بنائے جا سکتے ہیں۔ تاہم خاص طور پر مغربی ممالک بھی اعلامیے کے کئی نکات پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوئے مثلاً یہ کہ جنسی تعلیم کے حق کو تسلیم تو کیا گیا لیکن اس سلسلے میں حتمی فیصلے کا اختیار والدین کو دے دیا گیا ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر اقوام متحدہ میں جرمنی کے سفیر پیٹر وٹش نے اس اتفاقِ رائے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا:’’ہم خوش ہیں کہ بالآخر ہم پُل تعمیر کرنے میں کامیاب رہے۔ نتائج متوازن اور واضح ہیں اور پوری دُنیا کی خواتین کو یہ اشد ضروری پیغام دیتے ہیں کہ آپ کے حقوق اہم ہیں۔‘‘
اس کانفرنس کا اہتمام اقوام متحدہ کے خواتین کے تشخص سے متعلق کمیشن UNCSW نے کیا تھا، جس کا قیام 1946ء میں عمل میں آیا تھا۔ اگرچہ اس کانفرنس کے اعلامیے کی پابندی رکن ممالک کے لیے لازمی نہیں ہے تاہم سفارت کاروں اور حقوق انسانی کے علمبردار کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اعلامیہ کافی زیادہ وزن اور اہمیت کا حامل ہے اور مختلف ممالک کو اپنے ہاں خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے پر مجبور کرے گا۔
اس کانفرنس میں 193 ممالک کے ہزارہا مندوبین کے ساتھ ساتھ چھ ہزار تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ اس بات پر بھی اتفاقِ رائے پایا گیا کہ آئندہ خواتین کو صرف اور صرف اُن کی جنس کی بناء پر قتل کیے جانے کے اقدام کو ’فیمیسائیڈ‘ کہا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے ادارے یُو این ویمن کی سربراہ اور چلی کی سابق صدر مشیل بیچیلیٹ نے کہا:’’دنیا بھر کے لوگ ہم سے عملی اقدام کی توقع کر رہے تھے اور ہم نے اُنہیں مایوس نہیں کیا۔‘‘
انٹرنیشنل ویمنز ہیلتھ کوآلیشن سے وابستہ خاتون شینن کووالسکی نے کہا کہ یہ اعلامیہ خواتین اور لڑکیوں کی فتح کی علامت ہے لیکن بہتر ہوتا کہ اس میں اُس تشدد کو بھی تسلیم کیا جاتا، جو ہم جنس پرست خواتین اور مخلوط الجنس افراد کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کہا:’’حکومتیں تشدد کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات پر متفق ہو گئی ہیں۔ پہلی مرتبہ وہ اس بات پر رضامند ہوئی ہیں کہ آبرو ریزی کا شکار ہونے والی خواتین کو ایمرجنسی مانع حمل اور محفوظ اسقاط حمل جیسی صحت کی ہنگامی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔‘‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے مطابق اب ریاستوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ 2013ء کے اس اعلامیے کو عملی شکل دیں۔ ایک بیان میں اُنہوں نے کہا ہے:’’خواتین پر تشدد انسانی حقوق کی قابل نفرت خلاف ورزی، عالمگیر نقصان، عوامی صحت کو لاحق ایک بڑا خطرہ اور ایک اخلاقی ظلم ہے۔ وہ کہیں بھی رہتی ہو، اُس کی کوئی بھی ثقافت ہو، وہ کسی بھی معاشرے کا حصہ ہو، ہر خاتون اور ہر لڑکی کا یہ حق ہے کہ وہ خوف سے آزاد زندگی گزارے۔‘‘
(aa/ah(Reuters,dpa