افغان معاشرے کی بلند آواز، کبریٰ خادیمی
7 مارچ 2015پرانے دور میں جنگ میں استعمال ہونے والی زرہ بکتر پہن کر افغان اداکارہ کبریٰ خادیمی نے کابل کی سڑک پر اُن خواتین کے حق میں احتجاجی آواز بلند کی، جنہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ وہ کابل کی سڑک پر بمشکل آٹھ منٹ گزار پائی تھیں اور اب اُنہیں کئی قسم کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ اور اب وہ تقریباً روپوشی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اُسے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں۔
ستائیس برس کی اداکارہ کبریٰ خادیمی افغان معاشرے میں افزائش پاتے اِس رویے کے خلاف آواز بلند کرنے کا سلسلہ مسلسل جاری رکھنا چاہتی ہے، مگر ایسا ممکن نہیں۔ اُسے اکثر و بیشتر خاموش رہنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں جنسی زیادتی پر کھلے عام آواز اٹھانے کو معاشرتی آداب کے منافی خیال کیا جاتا ہے۔
سن 2013 کے اختتام پر اُس نے کابل کی ثقافتی گیلری میں بھی قدیمی جنگی لباس پہن کر ایک گھنٹے کی پرفارمنس دی تھی۔ اِس پرفارمنس کو بہت سارے لوگوں نے دیکھا تھا اور انہیں دیکھنے کے دوران رنج اور افسوس بھی ہوا۔ کبریٰ خادیمی نے ایک گھنٹے کے شو کے دوران جنسی زیادتی اور ہراساں کرنے کے خلاف پرفارم کرتے ہوئے ماتمی انداز میں اپنے چہرے پر کئی مرتبہ تھپڑ بھی مارے۔ اِس پرفارمنس کے بعد افغان اداکارہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ملک کے لوگوں کی اُس قوتِ برداشت کو سامنے لانا چاہتی ہے، جس کا مظاہرہ وہ گزشتہ تیس سالوں سے مسلط جنگ کے دوران کر رہے ہیں۔ اُس نے گزشتہ ماہ فروری کے آخر میں بھی جنگی لباس پہن کر ایک اور شو میں شرکت کی تھی۔
افغانستان میں جنگی حالات کے دور میں پاکستان میں پناہ لیے ہوئے کبریٰ خادیمی سن 2008 میں افغانستان واپس پہنچی تھی اور اُس کے مطابق وہ کئی مرتبہ جنسی طور پر ہراساں کی جا چکی ہیں۔ اُسی سال جب وہ کابل یونیورسٹی میں داخلے کا امتحان دینےجا رہی تھی تو اُس کے ساتھ سڑک پر ہی جنسی زیادتی کی گئی تھی اور کوئی بھی اُس کی مدد کو نہیں پہنچا تھا۔
کبریٰ کے مطابق وہ چیختی رہی لیکن ایسا لگتا تھا کہ لوگوں نے منہ دوسری طرف کر کے کانوں میں انگلیاں دے لی تھیں۔ کبریٰ کا بچپن پاکستانی شہر کوئٹہ میں گزرا تھا اور چار برس کی عمر میں کوئٹہ میں ایک اجنبی نے اُسے پہلی مرتبہ جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔
اُس واقعے کے حوالے سے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے افغان اداکارہ کبریٰ خادیمی کا کہنا ہے کہ وہ یہ اکثر سوچتی ہے کہ کاش چار سال کی عمر میں اُس نے لوہے کا انڈرویئر پہنا ہوتا تا کہ ایک اجنبی اُس کے ساتھ زیادتی کی کوشش نہ کرتا۔
کابل شہر میں ہونے والی زیادتی کے حوالے سے کبریٰ خادیمی نے کہا کہ سڑک پر کھڑے لوگوں نے میری مدد کرنے کے بجائے آوازے کسے اور اُسے طوائف کہنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کبریٰ خانم کا کہنا تھا کہ ایسی وارداتیں روز ہو رہی ہیں لیکن کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ کبری کے مطابق جنسی زیادتی کے واقعات ضروری نہیں کھلے عام ہو رہے ہوں لیکن یہ سلسلہ جاری ہے۔
یہ امر باعث افسوس ہے کہ افغانستان میں برقعہ پوش خواتین بھی جنسی زیادتی سے محفوظ نہیں ہیں۔ کئی شہروں کی گلیوں میں مرد کھلے عام ایسا کرنے سے گبھراتے نہیں ہیں۔ اِن برقعہ پوش خواتین کو شہر کے بازاروں میں چلتے پھرتے تواتر کے ساتھ غلیظ گفتگو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِس کے علاوہ کئی مرد ایسی خواتین کو ہاتھ لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
افغانستان میں صنفی امتیاز کا تصور تاحال پختہ نہیں ہے۔ گھروں میں خواتین پر کیے جانے والے تشدد کا کہیں بھی کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔ ابھی بھی کئی علاقوں میں شادی بیاہ کے موقع پر لڑکیوں کی فروخت کا قدیمی رواج موجود ہے۔ جنسی امتیاز کی جنگ لڑنے والا ناکامی کا شکار ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی مرد اُس کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آج کے دور میں بھی انتظامی عہدوں پر موجود خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔