خواتین کی طرح مردوں کا بھی کوئی باڈی کلاک ہوتا ہے؟
26 فروری 2023کسی مرد کے جسم میں افزائش نسل کے لیے استعمال ہونے والے مادے کی روزانہ بنیادوں پر پیداوار وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج کم تو ہوتی ہی جاتی ہے تاہم بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ یہ امکان بھی بڑھ جاتا ہے کہ تب ممکنہ طور پر اگر اولاد پیدا ہو، تو اس میں جسمانی طور پر ایک یا ایک سے زائد قسموں کی معذوری بھی موجود ہو۔
مردوں اور خواتین کے مابین بڑا فرق
یہ تو ایک طے شدہ بات ہے کہ جس طرح بڑھاپے میں خواتین ماہواری کا سلسلہ ختم ہو جانے کے ساتھ اپنی افزائش نسل کی عمر سے گزر جاتی ہیں، اس طرح کے عمل کا سامنا مردوں کو نہیں کرنا پڑتا۔ اس لیے کہ مرد عام طور پر بڑھاپے میں بھی افزائش نسل کے قابل تو رہتے ہیں مگر بڑھاپا ان کے جسم، صحت اور تولیدی صلاحیتوں پر اپنے اثرات تو چھوڑتا ہی ہے۔
مردانہ جنسی طاقت میں اضافے کے لیے تین غذائیں
جرمنی کے شہر کرےفَیلڈ کے یورولوجی، یورو گائناکالوجی اور اینڈرولوجی کے شعبوں میں اپنی مہارت کے لیے شہرت یافتہ ماریا ہِلف ہسپتال کے اینڈرولوجی کے شعبے کے سربراہ کرسٹیان لائبر کاسپرز ان تغیر پذیر مردانہ صلاحیتوں کی وضاحت مثالیں دے کر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مردوں میں یہ امکان بھی زیادہ ہو جاتا ہے کہ ان کے ہاں پیدا ہونے والی اولاد ایسی ہو کہ ان کے جسموں میں خاص طرح کی جینیاتی تبدیلیاں آ چکی ہوں۔‘‘
لائبر کاسپرز کے مطابق، ''کئی طبی مطالعاتی جائزوں نے ثابت کر دیا ہے کہ مردوں کی عمر اگر چالیس، پچاس یا ساٹھ برس سے زیادہ ہو چکی ہو، تو اس کے بعد پیدا ہونے والے ان کے بچوں میں جینیاتی تبدیلیاں بھی ہو چکی ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تب اگر کوئی مرد باپ بنے، تو اس کے بچوں میں جسمانی نقائص یا کچھ اعضاء کی ناقص نشو ونما کا امکان بھی کافی زیادہ ہو جاتا ہے۔‘‘
سپرمز میں آنے والی جینیاتی تبدیلیاں
کسی بھی مرد کے تولیدی خلیوں یا سپرمز میں جتنی بھی جینیاتی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، ان کی مجموعی تعداد ہر گزرتے ہوئے سال کے ساتھ زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ سائنسی حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ جب نئے سپرم پیدا ہوتے ہیں، تو وہ پہلے سے موجود سپرمز کے مکمل جینیاتی نقشے کی نقل سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب یہی نقل سالہا سال تک مسلسل کی جاتی رہے، تو وقت کے ساتھ ساتھ اس میں چھوٹی یا بڑی غلطیوں کا امکان بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔
نہ بیضہ درکار، نہ اسپرم: زندگی لیبارٹری میں تیار
تولیدی خلیوں کی تیاری میں عشروں تک اصل کی نقل کر کے پیداوار کا یہی عمل اس بات کی وجہ بھی بنتا ہے کہ کسی جینیاتی خصوصیت کا درست ہونا اپنے معمول سے ہٹ جاتا ہے اور برس ہا برس کے بعد یہ جملہ تبدیلیاں مل کر بہت بڑے اور منفی نتائج کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ انسانی جسم میں یہ صلاحیت بھی پائی جاتی ہے کہ وہ متعلقہ فرد کے جینیاتی مواد میں پیدا ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی خود ہی مرمت بھی کر سکتا ہے۔ لیکن بوڑھے مردوں میں یہ عمل بھی مسلسل کم سے کم تر ہوتا جاتا ہے۔
اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر 20 سے 30 سال تک کی عمر کا کوئی مرد اپنی اولاد میں تقریباﹰ 20 جینیاتی تبدیلیاں منتقل کرتا ہے، تو 40 سے 50 سال تک کی عمر کے کسی مرد کی طرف سے اس کی اولاد کو منتقل کی جانے والی ایسی جینیاتی تبدیلیوں کی تعداد 65 تک ہو جاتی ہے۔ پھر کسی مرد کا اس کے بڑھاپے میں پیدا ہونے والے کوئی بیٹا جب اپنی اولا دپیدا کرے گا، تو اس میں اپنے والد کی نسبت کہیں زیادہ جنیٹک میوٹیشنز کی منتقلی کا باعث بنے گا۔
خواتین میں انڈوں کی تیزی سے کم ہونے والی تعداد
خواتین کے جسموں میں انڈوں کی ایک خاص تعداد ہوتی ہے، جو ان کی زندگی کے پہلے ہی لمحے سے موجود ہوتی ہے۔ اس تعداد میں ان کی پیدائش کے دن سے ہی کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ حیض یا ماہواری کے عمل کا خاتمہ، جسے مینوپاز کہتے ہیں، اس وقت ہوتا ہے جب کسی خاتون کے جسم میں موجود زیادہ تر انڈے استعمال ہو چکے یا جسم سے خارج ہو چکے ہوں۔
ناسا انسانی اسپرم خلا میں چھوڑے گا
اس کے برعکس کسی مرد کے جسم میں سپرم مستقل طور پر بنتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹرون کا کہنا ہے کہ ایک صحت مند مرد کے جسم سے تولیدی مادے کے ایک مرتبہ کے اخراج میں 39 ملین سے زائد سپرم ہوتے ہیں۔ کچھ مردوں میں تو سپرمز کی یہ تعداد 200، 300 یا 400 ملین تک بھی ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر اور محقق کرسٹیاں لائبر کاسپرز کہتے ہیں، ''کسی خاتون کے ساتھ جنسی رابطے کے نتیجے میں کوئی بھی مرد یوں تو کئی ملین سپرم خارج کرتا ہے، تاہم بالآخر یہ صرف ایک واحد سپرم ہی ہوتا ہے جو انڈے کے ساتھ مل کر اسے بار آور کرتا ہے اور خاتون حاملہ ہو جاتی ہے۔‘‘
قدرت کے حیاتیاتی نظام کی بنیاد چونکہ سب سے طاقت ور اور مضبوط ترین جاندار کی بقا پر ہے، اس لیے کئی ملین سپرمز میں سے انڈے کو فرٹیلائز کرنے کا کام صرف وہی ایک سپرم کرتا ہے، جو سب سے زیادہ طاقت ور، مضبوط اور تیز رفتار ہوتا ہے۔
پہلی مرتبہ والدین بننے والے اب زیادہ عمر رسیدہ
جرمنی میں حالیہ برسوں میں اس اوسط عمر میں کافی اضافہ ہو چکا ہے، جب کوئی خاتون پہلی مرتبہ ماں بنتی ہے اور اولین اولاد جنم دیتی ہے۔ 2021ء میں عام خواتین میں یہ اوسط عمر 30.5 برس تک پہنچ چکی تھی۔ لیکن طبی طور پر مسئلہ یہ ہے کہ 35 برس سے زائد عمر کی خواتین کے لیے حاملہ ہونا کئی طرح کے خطرات سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔
ماؤں کی عمریں اتنی زیادہ ہو چکی ہوں، تو بچوں کے ڈاؤن سنڈروم جیسی بیماریوں کا شکار ہو جانے کا خطرہ بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔
خواتین میں جنسی طلب کیوں کم ہو جاتی ہے؟
دوسری طرف جرمن مردوں میں بھی اس اوسط عمر میں گزشتہ عشروں کے دوران کافی اضافہ ہو چکا ہے، جب وہ پہلی بار باپ بنتے ہیں۔ وفاقی جرمن دفتر شماریات کے مطابق 2021ء میں عام جرمن مرد اوسطاﹰ پہلی مرتبہ اس وقت باپ بنے، جب ان کی اپنی عمر 33.3 سال تھی۔
مردوں کا باڈی کلاک
گزشتہ ایک عشرے کے دوران اس بارے میں کافی زیادہ ریسرچ کی جا چکی ہے کہ آیا مردوں میں بھی خواتین کی طرح ایک مخصوص حیاتیاتی باڈی کلاک ہوتا ہے اور دیر یا بہت دیر سے باپ بننے والے مردوں کے اولاد میں کسی طرح کے طبی خطرات اور خدشات زیادہ ہوتے ہیں۔
ماہرین کا تاحال اس بارے میں کوئی متفقہ خیال نہیں کہ اس حوالے سے کیا واضح نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں یا کس طرح کی ٹھوس سفارشات کی جا سکتی ہیں۔
اس بارے میں کوئی بھی ٹھوس طبی تحقیق اس لیے بھی بہت پیچیدہ ہوتی ہے کہ ایسی کسی اسٹڈی کے لیے کسی بچے کے والد کے ساتھ ساتھ اس کی والدہ کے مکمل میڈیکل ڈیٹا پر بھی غور کرنا پڑتا ہے۔ یوں شماریاتی سطح پر امکانات اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا تقریباﹰ کوئی شمار ہی نہیں رہتا۔
اسکاٹ لینڈ حیض مصنوعات مفت دینے والا دنیا کا پہلا ملک
کرسٹیان لائبر کاسپرز کہتے ہیں، ''ان تمام انفرادی عوامل کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی کہنا بہت مشکل ہے، جو کسی نومولود بچے کی پیدائش کے وقت اس کی جسمانی اور جینیاتی صحت میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ کئی ایسی مخصوص شرائط اور حالات ہیں، جو ثابت کرتے ہیں کہ والد کے طور پر کسی بھی مرد کی عمر بھی اہم طبی کردار ادا کرتی ہے۔‘‘
م م / ش ح (گُدرُون ہائزے)