’خواتین کی ڈرائیونگ کی اجازت کا فیصلہ سعودی معاشرہ کرے گا‘
25 اپریل 2016انہوں نے یہ بات سعودی وژن 2030ء نامی منصوبے کے حوالے سے صحافیوں سے بات چیت میں کہی۔ اس منصوبے کے تحت سعودی حکومت تیل پر انحصار کو کم سے کم کر کے سرمایہ کاری پر مبنی اقتصادیات کی جانب بڑھنا چاہتی ہے۔
شہزادہ محمد سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان کے منصوبے کے مطابق ملازمتوں میں خواتین کا حصہ 22 تا 30 فیصد رکھا گیا ہے، تو کیا یہ آگے چل کر خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت کی جانب لے جائے گا؟ تو اس کے جواب میں شہزادہ محمد کا کہنا تھا، ’فی الحال معاشرہ اس کے لیے تیار نہیں اور اس کا منفی اثر پڑے گا۔ مگر ہم یہ بات زور دے کر کہیں گے کہ یہ فیصلہ سعودی معاشرے کو کرنا ہے۔ اس لیے کہ تبدیلی تھوپی نہیں جا سکتی۔‘‘
واضح رہے کہ خواتین پر پابندیوں کے اعتبار سے دنیا بھر میں سعودی عرب سرفہرست ہے جب کہ یہ واحد ملک ہے، جہاں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں۔ اس کے علاوہ سفر، شادی یا ملازمت کے لیے بھی خواتین کو ہر حال میں اپنے خاندان کے ارکان کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں سعودی عرب کی حکومت معاشرتی سطح پر خواتین کے حوالے سے کسی حد تک اصلاحات کرتی بھی دکھائی دیتی ہے۔
سعودی وژن 2030ء
شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی اقتصادیات میں انقلابی تبدیلیوں کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا ملک ’تیل کی آمدن کی عادت‘ سے چھٹکارا حاصل کرے گا اور گلوبل انویسٹمنٹ طاقت بنے گا۔
نائب ولی عہد نے بتایا کہ ان کا ملک اب ایک خصوصی فنڈ کے ذریعے سرمایہ کاری کے لیے موجود چھ ارب ڈالر کے سرمایے کو بڑھا کر سات کھرب ڈالر تک لے جائے گا، اس کے لیے تیل کی سرکاری کمپنی ارامکو کے پانچ فیصد حصص فروخت کیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ اس منصوبے میں بتایا گیا ہے کہ معاشرتی سطح پر بھی اس انتہائی قدامت پسند معاشرے میں تبدیلیاں لائی جائیں گی اور اقتصادی سرگرمیوں میں خواتین کی شمولیت کی راہ بھی ہوار کی جائے گی۔
ریاض میں غیرملکی صحافیوں کو خصوصی طور پر شاہی محل میں مدعو کیا گیا تھا۔ اس طرز کی پہلی پریس کانفرنس میں نائب ولی عہد شہزدہ محمد نے کہا، ’’ہم اپنے ملک کو بیرونی منڈیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی کی وجہ سے سعودی عرب کو ایک بڑے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سن 2020 تک ملک میں تیل کے علاوہ پیدا ہونے والے سرمایے کو چھ سو ارب ریال (ایک سو ساٹھ ارب ڈالر) تک لایا جائے گا، جب کہ سن 2030 تک اسے ایک کھرب ریال (دو سو 67 ارب ڈالر) تک پہنچا دیا جائے گا۔