1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’خواتین کی ڈرائیونگ کی اجازت کا فیصلہ سعودی معاشرہ کرے گا‘

عاطف توقیر25 اپریل 2016

سعودی نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پیر کے روز کہا ہے کہ حکومت نہیں بلکہ سعودی معاشرہ یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی جانا چاہیے یا نہیں۔

https://p.dw.com/p/1IcSd
Saudi Arabien Frauen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali

انہوں نے یہ بات سعودی وژن 2030ء نامی منصوبے کے حوالے سے صحافیوں سے بات چیت میں کہی۔ اس منصوبے کے تحت سعودی حکومت تیل پر انحصار کو کم سے کم کر کے سرمایہ کاری پر مبنی اقتصادیات کی جانب بڑھنا چاہتی ہے۔

شہزادہ محمد سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان کے منصوبے کے مطابق ملازمتوں میں خواتین کا حصہ  22 تا 30 فیصد رکھا گیا ہے، تو کیا یہ آگے چل کر خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت کی جانب لے جائے گا؟ تو اس کے جواب میں شہزادہ محمد کا کہنا تھا، ’فی الحال معاشرہ اس کے لیے تیار نہیں اور اس کا منفی اثر پڑے گا۔ مگر ہم یہ بات زور دے کر کہیں گے کہ یہ فیصلہ سعودی معاشرے کو کرنا ہے۔ اس لیے کہ تبدیلی تھوپی نہیں جا سکتی۔‘‘

واضح رہے کہ خواتین پر پابندیوں کے اعتبار سے دنیا بھر میں سعودی عرب سرفہرست ہے جب کہ یہ واحد ملک ہے، جہاں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں۔ اس کے علاوہ سفر، شادی یا ملازمت کے لیے بھی خواتین کو ہر حال میں اپنے خاندان کے ارکان کی اجازت درکار ہوتی ہے۔

Saudi Arabien Frauen
خواتین پر پابندیوں کے حوالے سے سعودی عرب سب سے آگے دکھائی دیتا ہےتصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں سعودی عرب کی حکومت معاشرتی سطح پر خواتین کے حوالے سے کسی حد تک اصلاحات کرتی بھی دکھائی دیتی ہے۔

سعودی وژن 2030ء

شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی اقتصادیات میں انقلابی تبدیلیوں کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا ملک ’تیل کی آمدن کی عادت‘ سے چھٹکارا حاصل کرے گا اور گلوبل انویسٹمنٹ طاقت بنے گا۔

نائب ولی عہد نے بتایا کہ ان کا ملک اب ایک خصوصی فنڈ کے ذریعے سرمایہ کاری کے لیے موجود چھ ارب ڈالر کے سرمایے کو بڑھا کر سات کھرب ڈالر تک لے جائے گا، اس کے لیے تیل کی سرکاری کمپنی ارامکو کے پانچ فیصد حصص فروخت کیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ اس منصوبے میں بتایا گیا ہے کہ معاشرتی سطح پر بھی اس انتہائی قدامت پسند معاشرے میں تبدیلیاں لائی جائیں گی اور اقتصادی سرگرمیوں میں خواتین کی شمولیت کی راہ بھی ہوار کی جائے گی۔

ریاض میں غیرملکی صحافیوں کو خصوصی طور پر شاہی محل میں مدعو کیا گیا تھا۔ اس طرز کی پہلی پریس کانفرنس میں نائب ولی عہد شہزدہ محمد نے کہا، ’’ہم اپنے ملک کو بیرونی منڈیوں کے رحم و کرم  پر نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی کی وجہ سے سعودی عرب کو ایک بڑے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سن 2020 تک ملک میں تیل کے علاوہ پیدا ہونے والے سرمایے کو چھ سو ارب ریال (ایک سو ساٹھ ارب ڈالر) تک لایا جائے گا، جب کہ سن 2030 تک اسے ایک کھرب ریال (دو سو 67 ارب ڈالر) تک پہنچا دیا جائے گا۔