1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین کے خلاف پرتشدد واقعات: پشاور سر فہرست

1 نومبر 2012

پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ نے غربت کی شرح میں مزید اضافہ کردیا ہے اور کئی سرمایہ کار بدامنی کے باعث دوسرے علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/16ay9
تصویر: DW

یہ صورت حال نہ صرف بےروزگاری میں بہت زیادہ اضافے کی وجہ بنی ہے بلکہ صوبے اور قبائلی علاقوں میں خواتین کے خلاف پر تشدد واقعات میں بھی واضح اضافہ ہوا ہے۔

پشاور میں ان حالات کی وجہ سے خواتین پر مشتمل آبادی کا 52 فیصد حصہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں 55 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سال رواں کے دوران جنوری سے جون تک 283 واقعات میں عورتوں پر تشدد یا ان کے خلاف جرائم کو رپورٹ کیا گیا۔ ان میں سے سب سے زیادہ واقعات قتل کے تھے، جن کی تعداد 157رہی۔

Symbolbild Ehrenmorde Gewalt gegen Frauen
خواتین کے خلاف پر تشدد واقعات کی بڑی وجوہات غربت، ناخواندگی اور سماجی رویے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

پشاور ملک کے 14’ہائی رسک‘ اضلاع میں سر فہرست ہے، جہاں عورتوں کے خلاف تشدد اور جرائم زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔ خواتین کے حقوق اور ان حقوق کی آگہی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی ایک عہدیدار شیریں کا کہنا ہے، ”گھریلو تشدد کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بیروزگاری ہے۔ اس سے فرسٹریشن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ غربت میں اضافے کی وجہ سے بیٹیوں کی شادیاں کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

شیریں کا کہنا ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں شعور و آگہی نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی دینا ہوگی کیونکہ جب تک مردوں کے ذہن صاف نہیں ہوتے، تبدیلی کا عمل ممکن نہیں ہے۔ ’’ہمارے معاشرے میں مردوں کا غلبہ ہے اور وہی قوانین بناتے ہیں اور جو بھی کردار بنتا ہے، اس کا تعین بھی مردوں نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ ہم خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں میں آگہی کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جنگوں اور بدامنی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، جو بیروزگاری کا سبب بنا ہے اور اسی بیروزگاری کی وجہ سے معاشرے میں خواتین کے خلاف تشدد کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔‘‘

اس سال کی پہلی ششماہی کے دوران ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں خیبر پختونخوا میں خواتین کے قتل کے سب سے زیادہ واقعات دیکھنے میں آئے۔ یہ تعداد 157 رہی۔ اسی دوران گھریلو تشدد کے 32، غیرت کے نام پر قتل کے 23 اورخود کشی کے 30 واقعات رپورٹ ہوئے۔

Symbolbild Mord Ehrenmord Messer
’سال رواں کی پہلی ششماہی میں ملک میں غیرت کے نام پر 349 خواتین کو قتل کر دیا گیا‘تصویر: bilderbox

اگرچہ ان اعداد و شمار کے رُو سے خیبر پختونخوا خواتین کے خلاف تشدد کے لحاظ سے سر فہرست ہے لیکن مقامی پولیس کے مطابق صوبے کی مخصوص روایات کی وجہ سے خواتین پر تشدد کے واقعات کا رپورٹ کیا جانا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کے سبب حقیقی اعداد و شمار سامنے نہیں آتے۔ اس طرح کے واقعات کے خلاف پولیس کے پاس ایف آئی آر درج کرانے کی شرح 65 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔

عورت فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے کے دوران ملک بھر میں تشدد کا شکار ہونے والی خواتین میں 170 خواتین شادی شدہ اور 62 غیر شادی شدہ تھیں۔

مجموعی طور پر ملک بھر میں اس عرصے کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اغواء کے 1160، قتل کے1086، جنسی زیادتی اور گینگ ریپ کے792، خودکشی کے435، غیرت کے نام پر قتل کے349، گھریلو تشدد کے 346، تیزاب پھینکنے کے 298 اور عورتوں کے جلائے جانے کے32 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور

ادارت: عصمت جبیں