خواجہ سرا کی موت، پاکستانی معاشرے کی بے حسی
25 مئی 2016میڈیا رپورٹس کے مطابق علیشا کو حملے کے بعد پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ خیبر پختونخوا کے خواجہ سراؤں کی تنظیم ’ٹرانز ایکشن الائنس‘ (ٹی اے اے) کے فیس بک پیج پر ہسپتال میں علیشا کے ساتھ غیر ذمہ دارنہ رویے کا کئی مرتبہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ہسپتال کے ڈاکٹر علیشا کے ساتھ آنے والے خواجہ سراؤں سے پوچھتے رہے کہ کیا وہ صرف ڈانس کرتے ہیں؟ اور وہ بطور معاوضہ کتنے پیسے لیتے ہیں۔ علاوہ ازیں لیبارٹری میں بھی علیشا کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا اسے ایڈز کی بیماری تو نہیں ہے۔
اسی فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں لکھا گیا ہے کہ علیشا کے لیے انہیں ایک الگ کمرہ لینا پڑا کیوں کہ ڈاکٹر نہ اسے مردانہ اور نہ ہی زنانہ وارڈ میں داخل کر رہے تھے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کی مطابق اس برس خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کا یہ پانچواں واقعہ ہے۔ عدنان، سمیر، کومل اور عائشہ کو اسی سال تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان تمام کا تعلق ’ ٹی اے اے‘ سے ہے۔
اس تنظیم اور سول سوسائٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کو قتل، اغوا، حراساں، ریپ اور ان کی توہین کرنے کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ خواجہ سراؤں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور ان سے بھتہ بھی مانگا جاتا ہے۔
اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ علیشا ٹرینڈ کر رہا ہے اور کئی افراد پاکستانی معاشرے میں خواجہ سراؤں کے خلاف متعصبانہ سلوک پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
کئی افراد خیبر پختونخوا حکومت کو بھی اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں اور خواجہ سراؤں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
ٹی اے اے نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ شدید زخمی ہونے والی علیشا کو آئی سی یو میں بھیجا جانا ضروری تھا لیکن علیشا کے لیے وہاں کوئی بیڈ نہیں تھا۔