’خواجہ سراؤں کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے‘
14 فروری 2018معروف قانون دان گل رحمان ایڈوکیٹ کی وساطت سے دائر کی گئی اس رٹ پٹیشن میں چیف الیکشن کمیشنر اسلام آباد اور الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کو فریق بناتے ہوئے عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ آنے والے عام انتخابات کے لیے امیدواروں کی نامزدگی فارم میں مرد اور عورت کے خانوں کے ساتھ خواجہ سراؤں کے لیے بھی ایک کالم بنایا جائے تاکہ خواجہ سرا اپنی صنفی پہچان کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے سکیں۔
پاکستان: خواجہ سراؤں کو مردم شماری میں شامل کیا جائے گا
پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ماڈل
خواجہ سراؤں سے بھی شادی کی جا سکتی ہے، فتویٰ
اس پٹیشن میں یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ خواجہ سراؤں کو ترجیحی بنیادوں پر ووٹ ڈالنے کا حق دے کر انہیں تضحیک آمیز رویے سے بچایا جائے۔ رٹ پیٹیشن میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے عملے کو پابند بنایا جائے کہ خواجہ سراؤں کو ووٹ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر رجسٹرڈ کیا جائے۔
پشاور ہائی کورٹ کے احاطے میں میڈیا سے بات چیت کے دوران ٹرانس ایکشن کی صوبائی صدر فرزانہ جان کا کہنا تھا، ’’حکومت پاکستان نے ٹرانس جینڈرز کو ایکس کے نشان والے شناختی کارڈ جاری کیے ہیں۔ اب اس میں مشکل یہ ہے کہ ہم مردوں کے پولنگ اسٹیشن جائیں یا خواتین کے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ خواجہ سرا پاکستان کے مساوی شہری ہیں، لہٰذا انہیں انتخابات میں بطور ووٹر اور امیدوار حصہ لینے سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد کے حوالے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار میں تضاد پایا جاتا ہے۔ حالیہ مردم شماری کی رو سے خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد گیارہ سو بتائی جاتی ہے لیکن جب اس سلسلے میں پشاور میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی فلاح کے لیے کام کرنے والی تنظیم بلیو ویز کے چیف ایگزیکٹو قمر نسیم کا کہنا ہے، ’’ٹرانس جینڈر کی جو تعریف ہم کرتے ہیں اس کی رو سے پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ ہے۔ قبائلی علاقوں سے شفٹ ہونے والے ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد آٹھ سو سے زیادہ ہے۔ حکومت صرف ان کی تعداد بتاتی ہے، جو ڈیروں میں آباد ہیں۔ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں یہ تعداد اور بھی زیادہ ہے۔ ان کے خلاف تشدد کے رجسٹرڈ کیسز سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سال خواجہ سراؤں پر تشدد کے پانچ سو اسی کیس رجسٹرڈ ہوئے اور سات کو قتل کیا گیا۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے قمر نسیم نے مزید کہا کہ سندھ پنجاب اور خیبرپختونخوا سے کئی خواجہ سرا انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کے لیے انہیں اپنی شناخت کی ضرورت ہے۔ ان کا کہا تھا کہ گزشتہ انتخابات کے دوران بھی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے خواجہ سراؤں نے مرد کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا تھا، جو غیر آئینی ہے، ’’ ہم آج بھی حکومت سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں پوسٹل بیلٹ کا حق دیا جائے اور انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نامزدگی فارمز میں اندراج کو یقینی بنایا جائے۔ اسی طرح ہم سیاسی جماعتوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں کوٹہ مختص کیا جائے۔‘‘
جب اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان خیبر پختونخوا کے ترجمان سہیل احمد سے ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا، ’’خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ عدلیہ کی جانب سے جو بھی فیصلہ آئے گا، ہم اس پر مکمل عمل درامد یقینی بنائیں گے اور ہم ان کے مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ہم نے انہیں پہلے بھی سہولیات فراہم کی ہیں اور اب بھی اس کے لیے تیار ہیں۔‘‘
پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں ٹرانس جنینڈرز کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، جہاں ان پر آئے روز تشدد کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ وہاں معاشرہ انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، جس کی وجہ سے اب وہ اسمبلیوں میں اپنی نمائندگی اور ووٹ کے حق کے لیے جدجہد کر رہے ہیں۔ سال رواں کے ڈیڑہ ماہ کے دوران پختونخوا میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے ستاون کیسز رجسٹرڈ ہوئے جبکہ دو کو پشاور میں قتل کیا گیا۔ انصاف کی فراہمی کے لیے خواجہ سرا آئے روز سڑکوں پر احتجاج بھی کرتے نظر آتے ہیں۔