خود کش دھماکا کرنا چاہتا تھا، صالح عبدالسلام
20 مارچ 2016بیلجیم کے شہر بریگے کی ایک ہائی سکیورٹی جیل میں قید صالح عبدالسلام سے پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ برسلز میں جمعے کے دن ایک چھاپے کے دوران وہ زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس دوران اس کی ٹانگ پر گولی لگی تھی اور وہ معمولی زخمی ہو گیا تھا۔
ایک ہسپتال میں اسے طبی امداد دینے کے بعد شمالی مشرقی شہر بریگے منتقل کر دیا گیا۔ پیرس حملوں میں ملوث ہونے پر ’دہشت گردی‘ کے الزامات کے تحت اس پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ بیلجیم کے حکام نے بتایا ہے کہ آج اتوار کے دن سے صالح سے باقاعدہ پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
بیلجیم کے حکام نے بتایا ہے کہ صالح استغاثہ کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے لیکن اس نے فرانس حوالگی کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس کی سرزمین پر خونریز ترین دہشت گردانہ حملوں میں مبینہ طور پر ملوث صالح نے استغاثہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ حملوں کے دوران پیرس کے اسٹیڈیم کے نزدیک ہی خودکش حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن عین وقت پر اس نے اپنا ارادہ بدل لیا تھا۔
صالح کے وکیل سوَن ماری نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ان کا مؤکل چاہتا ہے کہ اسے فرانس کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ اس کا مقدمہ بیلجیم میں ہی چلایا جائے۔ جمعے کے دن چھبیس سالہ صالح کے ساتھ اس کے ساتھی منیر احمد کو بھی گرفتار کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ احمد پر بھی دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
پیرس کے پراسیکیوٹر فرانسوا مولن کے مطابق تیرہ نومبر کے حملوں میں صالح عبدالسلام نے مرکزی کردار کیا تھا۔ اس پر الزام ہے کہ وہ ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ ہونے کے ساتھ ساتھ براہ راست ملوث بھی تھا۔ بتایا گیا ہے کہ صالح سے پوچھ گچھ کے نتیجے میں یورپ میں فعال مزید جنگجوؤں کی نشاندہی بھی ممکن ہو سکتی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ برسلز حکومت سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ صالح کو فرانس کے حوالے کر دیا جائے۔ اولانڈ کے مطابق اس انتہائی مطلوب ترین دہشت گرد کی گرفتاری ایک فتح ہے لیکن اس سے دہشت گردی کے خلاف جاری لڑائی ختم نہیں ہو گی۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان کی حکومت دیگر یورپی ممالک کے ساتھ مل کر انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن بنانے کی کوشش کریں گے۔
صالح کے وکیل سوَن ماری کے مطابق وہ بھرپور کوشش کریں گے کہ ان کے مؤکل کو فرانس کے حوالے نہ کیا جائے تاہم ماہرین کے مطابق جرائم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ایسا امکانات کم ہی ہیں کہ صالح کو فرانس کے حوالے کرنے کا عمل رک سکے۔
فرانسیسی وزیر برائے انصاف نے امید ظاہر کی ہے کہ تین ماہ کے دوران صالح کو قانونی کارروائی کا عمل مکمل کرنے کے بعد پیرس حکومت کی تحویل میں دے دیا جائے گا۔