خوراک میں ملاوٹ کے حیران کن اسکینڈل
آسٹریلیا میں اسٹرابری میں سے سوئیاں نکلنے پر دنیا ششدر ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں خوراک میں ملاوٹ کے کئی اسکینڈل ماضی میں بھی سامنے آ چکے ہیں۔
ستمبر سن 2018: آسٹریلین اسٹرابری میں سوئیاں
آسٹریلوی حکومت نے ملک بھر میں مختلف اسٹرابری کے ڈبوں میں سوئیوں کی موجودگی کی فوجداری تفتیش شروع کر دی ہے۔ سوئیوں والے اسٹرابری آسٹریلیا کی سات ریاستوں کے چھ اضلاع میں عام صارفين کے ليے دستیاب تھیں۔ سوئی والی ایک اسٹرابری کھانے کے سبب ایک شخص کو ہسپتال بھی لے جايا جا چکا ہے۔
جنوری سن 2018: جرمنی ڈبل روٹی میں پنیں
رواں برس آسٹریلیا کے لوگوں کو اسٹرابری احتیاط سے کھانے کی تلقین کی گئی ہے تو جرمن لوگ بھی ڈبل روٹی کھانے میں احتیاط برتے آئے ہيں ۔ جنوری ميں جنوب مغربی جرمن شہر اوفنبیرگ کے ایک روز مرہ کی اشیاء کے اسٹور میں ڈبل روٹی کے علاوہ خوراک کی کئی دوسری اشیاء میں سے پنیں ملی تھیں۔
جرمنی: بچوں کی زہریلی خوراک اور بھتہ خوری
جرمن والدین میں سن 2017 میں اُس وقت خوف و ہراس پھیل گیا جب ماہِ ستمبر میں فریڈرش ہوفن شہر میں بچوں کی خوراک کے ایک جار میں سے زہریلا مواد ملا تھا۔ اس کے استعمال سے ایک بچے کی موت بھی واقع ہوئی۔ ایک پچپن سالہ شہری نے دھمکی دی کہ اگر اسے دس ملین یورو نہ دیے گئے تو مزید زہریلے مادے والے جار مارکیٹ ميں بھيج دیے جائیں گے۔ اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا اور اُس نے زہر ملانے کے جرم کا اعتراف بھی کیا تھا۔
پاکستان: زہریلی مٹھائی سے دو درجن س زائد ہلاکتیں
سن 2016 میں پاکستانی صوبے پنجاب میں زہریلے لڈو کھانے سے کم از کم تیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مٹھائی میں زہر ملانے کا واقعہ دانستہ تھا۔ مٹھائی فروش کے بھائی نے ایک معمولی تلخ کلامی کے بعد لڈو تیار کرنے کے مواد میں زہر ملا دیا تھا۔ اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان زہریلے لڈوؤں کے کھانے سے ستر سے زائد افراد کو موت و حیات میں مبتلا رہنا پڑا تھا۔
اٹلی: مضر پانی کی بوتلیں
سن 2003 میں اٹلی میں مضر پانی کی بوتلوں کی دستیابی کے بعد شدید عدم بےچینی پائی گئی۔ ان بوتلوں میں بلیچنگ پاؤڈر کا محلول اور ایسیٹون کے مادے ٹیکا لگانے والی سرنجوں سے منتقل کیے گئے تھے۔ پولیس نے ماحول دوستوں اور بنیاد پرست عناصر پر ایسا کرنے کا شبہ ظاہر کیا تھا۔
امریکا: ٹائیلینول سے قتل
سن 1982 میں امریکی شہر شکاگو میں ایسے سات افراد ہلاک ہو گئے تھے، جنہوں نے درد سے نجات کی ایسی گولیاں کھائی تھیں جن میں سنکھیے زہر کے اجزاء موجود تھے۔ یہ معاملہ ابھی تک حل طلب ہے اور اس باعث کوئی بھی مشتبہ شخص حراست میں نہیں لیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد دوا ساز کمپنیوں سے مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ ایسی پیکنگ بنائے جن میں گولیاں ہر ممکن طریقے سے محفوظ رہ سکیں۔