1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خورشید قصوری اور اسرائیلی وزیر خارجہ کی خفیہ ملاقات کی کہانی

18 مئی 2022

پاکستان کے گنے چُنے اعلیٰ حکام کے علاوہ کسی کو اس ملاقات کا علم نہیں تھا۔ یہ جمیز بانڈ کی 007 فلم کی طرح تھی۔ دورے کو خفیہ رکھنے کے لیے طیارے کی لینڈنگ کے وقت استنبول ایئرپورٹ کی لائیٹیں تک بند کر دی گئیں تھیں۔

https://p.dw.com/p/4BS53
Istanbul Khursheed und Kasuri Silvan Shalom
تصویر: AFP

آج کل پاکستانی سوشل میڈیا پر چند پاکستانیوں کے اسرائیل کے حالیہ دورے پر بحث جاری ہے۔ پاکستانی امریکیوں کے ساتھ ایشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں اور سکھوں کے ایک وفد نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔

اس وفد میں ایک پاکستانی یہودی کے علاوہ امریکہ میں مقیم لابسٹ اور پاکستانی نژاد انیلا علی کے ساتھ ساتھ پاکستانی صحافی احمد قریشی بھی شامل تھے۔ اس وفد کے شرکاء نے پارلیمنٹ ہاؤس سمیت اہم مقامات کے دورے کیے ہیں اور اسرائیلی صدر سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔

سوشل میڈیا پر اعتراضات

پاکستان تحریک انصاف کی سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے پاکستانیوں کے دورہ اسرائیل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ اداروں کا کام  ہے کہ وہ اس بات کی تحقیق کریں کہ اس دورے کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور کون اس سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ یاد رہے پاکستان کے پاسپورٹ پر یہ ہدایات واضح طور پر درج ہیں کہ اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ نہیں کیا جا سکتا۔

کیا اس وقت پاکستان اسرائیل سفارتی تعلقات کا قیام ممکن ہے؟

 پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کہتے ہیں کہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ جب تک اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی نہیں کرتا اور یروشلم کو دارالحکومت بنا کر آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی، تب تک پاکستان اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔

Bildkombo Flaggen Pakistan und Israel

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے 2005ء میں پہلی مرتبہ اسرائیلی وزیر خارجہ سیلون شالوم سے ملاقات کی تھی۔ خورشید قصوری کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب 2005ء میں وہ اس ملاقات کے لیے استنبول روانہ ہوئے تو صدر پرویز مشرف، وزیر اعظم شوکت عزیز اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے علاوہ بہت کم لوگوں کو علم تھا کہ وہ اسرائیلی نائب وزیر اعظم (جو وزیر خارجہ بھی تھے)  سے ملاقات کے لیے جا رہے ہیں۔

'دورہ استنبول جیمز بانڈ کی فلم سے کم نہیں تھا‘

خورشید قصوری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے ساتھ سفر کرنے والے چیف آف سٹاف (ڈائریکٹر جنرل فارن منسٹر آفس) اور ایمبیسڈر خالد محمود کو بھی سفر کے دوران ہی بتایا گیا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ خورشید قصوری کے بقول ان کا یہ دورہ استنبول کسی جیمز بانڈ 007 سیریز کی فلم سے کم نہیں تھا۔ پاکستان سے پہلے وہ لیبیا گئے۔ وہاں سے، جب وہ رات کو ترکی پہنچے تو ان کے دورے کو خفیہ رکھنے کے لیے ان کے طیارے کی لینڈنگ کے وقت استنبول ایئرپورٹ کی لائیٹیں بند کر دی گئیں تھیں۔ ان کا جہاز ایئرپورٹ کی عمارت سے بہت دور کھڑا کیا گیا۔ انہیں ایک خصوصی گاڑی میں خاموشی کے ساتھ ایئرپورٹ سے باہر لایا گیا اور ان کی تمام نقل و حرکت کو خفیہ رکھا گیا تھا۔

اس دورے کا انتظام کس نے کیا؟

عام حلقوں میں تاثر یہ ہے کہ اس دورے کا اہتمام شاید امریکہ نے کیا ہو گا لیکن خورشید قصوری بتاتے ہیں کہ امریکہ کو تو شاید اس دورے کا پتہ ہی نہیں تھا۔ ان کے بقول اس ملاقات کا اہتمام اس وقت کے ترک وزیراعظم اور آج کے صدر رجب طیب ایردوان نے کیا تھا۔

 اس دورے سے پہلے فلسطین کے صدر کو اعتماد میں لیا گیا تھا جبکہ سعودی عرب کو بھی اس سے باخبر رکھا گیا تھا۔ سابق وزیر خارجہ نے بتایا کہ اسرائیلی وزیر خارجہ سیلون شالوم نے بھی ایک پاکستانی صحافی کو بتایا تھا کہ یہ ملاقات امریکہ کے لیے بھی حیران کن تھی اور ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے انہیں فون کر کے کہا تھا کہ یہ ملاقات امریکہ کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث بنی ہے۔

یہ دورہ کیوں ہوا؟

خورشید قصوری وجوہات بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ دورہ بنیادی طور پر پاکستان کی قومی سلامتی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پلان کیا گیا تھا۔ ان دنوں امریکہ بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ کرنے جا رہا تھا۔ پاکستان بھی ایسا معاہدہ چاہتا تھا لیکن امریکہ کی یہودی لابی کی طرف سے پاکستان کو مخالفت کا سامنا تھا۔

اس معاملے کو نیوٹرالائز کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت نے اعلی ترین سطح پر اس رابطے کا فیصلہ کیا تاکہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ یہ وہ دور تھا، جب پاکستان دشمنی کی وجہ سے بھارت اور اسرائیل کی قربتیں بڑھ رہی تھیں اور دونوں ممالک کے مابین دفاعی تعاون بڑھنے سے پاکستان کو خطرات لاحق تھے۔

بھارت اسرائیل سے اپنی فضائیہ کے لیے تین فالکن ایئر بورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم خریدنے کا معاہدہ کر رہا تھا اور بھارتی بحریہ کے براق پوائینٹ دفاعی نظام کی رینج میں توسیع کے لیے بھی اسرائیل مدد کر رہا تھا۔ ایسے حالات میں اسرائیلی نائب وزیر اعظم سے ملاقات یہ پیغام دینے کے لیے بھی ضروری تھی کہ پاکستان کی سلامتی کے مفادات کو چوٹ پہنچانے کے لیے اسرائیل کو حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ 

ان کے الفاظ میں ان دنوں امریکہ جدید جنگی ہتھیار بھارت کو نہیں دیتا تھا اور بھارت یہ ہتھیار اسرائیل سے لے رہا تھا۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ اس ملاقات میں ایک ''گارڈڈ میسج‘‘ اسرائیل کو پہنچایا جائے کہ آپ بھارت کو جدید جنگی ہتھیار دے کر پاکستان کی سلامتی کو خطرات سے دو چار کر رہے ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور اسے بالواسطہ طور پر دشمنی نہیں پالنی چاہیے۔

دورے کے وقت کا انتخاب کیسے ہوا؟

خورشید قصوری کے بقول اس وقت اسرائیلی وزیراعظم شیرون غزہ سے انخلا کر رہے تھے اور ساری اسلامی دنیا میں اس اقدام کا خیر مقدم کیا جا رہا تھا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک ایسے موقع کی تلاش میں تھی، جس کے ذریعے یہ پیغام پہنچایا جا سکے اور یہی ایک مناسب وقت جانا گیا۔

ملاقات میں کیا بات چیت ہوئی؟

اسرائیلی نائب وزیر اعظم سے ملاقات کی روداد بتاتے ہوئے خورشید قصوری کہتے ہیں کہ  ترک میزبانوں نے وزیراعظم طیب ایردوان کی ہدایت پر 2005ء کو تاریخی توپ کاپی میوزیم کے قریب ایک ہوٹل کی چھت پر ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ پاکستانی اور اسرائیلی وزرائے خارجہ سطح کی یہ پہلی باضابطہ ملاقات دو گھنٹے جاری رہی، جس میں دونوں جانب سے تین تین نمائندوں نے شرکت کی۔

ملاقات میں بنیادی طور پر مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر بات چیت ہوئی۔ خورشید قصور ی کے مطابق اسرائیلی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سیلون شالوم نے ان سے سوال کیا کہ آخر آپ پاکستانی فلسطینیوں سے بڑھ کر فلسطینی کیوں ہیں اور پاکستان اور اسرائیل کے مابین اس پہلی ملاقات میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ خورشید قصوری نے اسرائیلی وفد کو ان وجوہات سے آگاہ کیا، جن کے باعث پاکستانیوں کے دل میں فلسطین اور فلسطینیوں کے لیے خصوصی محبت ہے۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیسے قائم ہو سکتے ہیں؟

خورشید قصوری کہتے ہیں کہ اسرائیل کی طرف سے اسے سفارتی سطح پر تسلیم کر لینے کے بدلے میں جدید ترین ٹیکنالوجی اور زرعی شعبے کی ترقی میں معاونت سمیت بہت سی ترغیبات دی جاتی رہی ہیں۔ لیکن ان تمام آفرز کے جواب میں پاکستان کی طرف سے ہمیشہ یہی کہا گیا کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں سے فوجیں باہر نکالے اور فلسطین کے مسئلے کا منصفانہ حل یقینی بنائے اور وہاں آزاد اور خود مختار فلسطینی حکومت قائم کی جائے۔

پاکستان میں اسرائیل مخالف رائے عامہ

خورشید قصوری کہتے ہیں کہ کوئی جمہوری ملک اپنے عوام کی رائے کو نظر انداز کر کے خارجہ امور میں بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا۔ ان کے بقول پاکستانیوں کے نزدیک مسئلہ فلسطین ایک اہم مئسلہ ہے اور پاکستان کے عوام کی امنگوں کے برخلاف کوئی سیاسی جماعت اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا رسک نہیں لے سکتی۔ ان کے خیال میں اگر سعودی عرب کے مرحوم شاہ عبداللہ کے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کر دے تو اس سے عالم اسلام میں اسرائیل کے ساتھ بامقصد بات چیت شروع کرنے کے طرف مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے۔ 

کیا پاکستان متحدہ عرب امارات والی پالیسی اپنا سکتا ہے؟

خورشید قصوری کہتے ہیں کہ ترکی کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ امارات جیسے ممالک، جہاں جمہوریت نہیں ہے، رائے عامہ کا جائزے نہیں ہوتے، وہاں لوگوں کی آرا نہیں لی جاتی۔ وہاں فارن پالیسی پر لوگوں کی رائے کو نظر انداز کر کے بھی کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے لیکن پاکستان میں حالات بالکل مختلف ہیں، ''حکومت لوگوں کے سامنے جوابدہ ہے۔ اس ملک کا ایک تاریخی پس منظر ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ترکی کا معاملہ بھی بہت مختلف ہے، ایک زمانے میں تاریخ کے ایک مشکل دور میں ترکی نے یہودیوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی، اس وجہ سے ترکی اور اسرائیل کے تعلقات بہت مختلف نوعیت کے ہیں۔

اسرائیلی اسلحہ پاکستان میں

پاکستان میں سفارتی ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کے دارالخلافوں میں ماضی میں پاکستان اور اسرائیل کے سفارتی اہلکاروں کےغیر رسمی رابطے ہوتے رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں خورشید قصوری نے بتایا کہ اسرائیل نے اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان جنگ کے لیے اسلحہ دیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اسرائیل سے اسلحہ خوشی خوشی لے لیا تھا اور انہیں ہدایت کی تھی کہ اسلحے کے ڈبوں پر اسرائیلی پرچم کا نشان واضح نہ کیا جائے۔

 

ایڈیٹر، امتیاز احمد