رضوانہ دس برس کی ہے یا تیرہ کی، اس سے کیا فرق پڑتا ہے وہ بس ایک گھریلو ملازمہ ہے، جسے اس کے آقا سول جج اور اس کی بیوی نے مسلسل چھ ماہ تشدد کا نشانہ بنایا ۔رضوانہ کے سر کے زخموں میں کیڑے پڑ گئے۔ اس کا باپ اسے لاہور کے ایک اسپتال تک لے گیا اور اب رضوانہ آئی سی یو میں موت و زیست کی کش مکش میں مبتلا ہے ۔
سائلین کو انصاف بانٹنے والے اس سول جج کو کم از کم اتنا تو ضرور معلوم ہوگا کہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری میں لاگو گھریلو ملازمین کے تحفظ کے قانون کے تحت اٹھارہ برس سے کم عمر کے بچوں سے گھریلو مشقت لینا غیر قانونی ہے ۔
معزز منصف کو شائد یہ بھی معلوم ہو کہ پاکستان میں اس وقت کم سے کم تنخواہ پچیس ہزار روپے ہے اور رضوانہ کے باپ کو رضوانہ کی غلامی کے عوض محض دس ہزار روپے ماہانہ بھیجے جا رہے تھے۔ قابلِ احترام جج کو شائد یہ بھی علم ہو کہ کسی کو بھی حبسِ بے جا میں رکھنا قابلِ سزا جرم ہے اور یہ کہ کسی شخص بالخصوص کم سن بچوں پر جسمانی تشدد اور اعضا مسخ کرنے کی قانون میں سزا عمر قید تک ہے ۔
مگر ہوا کیا ؟ پولیس نے جو ابتدائی ایف آئی آر کاٹی اس میں جسمانی تشدد کی دفعات نہیں لگائی گئیں۔سول جج صاحب اور ان کی اہلیہ گھر سے رفوچکر ہو گئے اور دونوں معزز مفروروں کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے ضمانت قبل از گرفتاری دان کر دی۔
جیسے جیسے یہ معاملہ میڈیا کے ریڈار سے اوجھل ہوگا۔ پرانے آزمودہ تلخ تجربات کی روشنی میں بہت حد تک امکان ہے کہ پولیس، جج ، وکیل اورکوئی نہ کوئی بااثر رضوانہ کے باپ پر دباؤ ڈال کے اس سے بیان لکھوائیں گے کہ جج صاحب اور ان کی اہلیہ کو اس نے اللہ کے نام پر معاف کر دیا۔اس کے عوض اسے لاکھ پچاس ہزار روپے تھما دئیے جائیں گے ۔عدالت راضی نامہ دیکھے گی اور پھر سب اگلی واردات تک سو جائیں گے۔
رضوانہ نہ تو ظلم کا نشانہ بننے والی کوئی پہلی کم سن گھریلو ملازم ہے اور نہ ہی آخری ۔روزانہ کہیں نہ کہیں ایسی واردات ہوتی رہتی ہے ۔جو جو واقعات اتفاقاً میڈیا کے علم میں آجاتے ہیں ان پر چند دن شور اٹھنے کے سبب تھوڑی بہت پکڑ دھکڑ اور پرچے بازی ہو جاتی ہے مگر نوے فیصد وارداتیں سامنے آنے سے پہلے ہی دب دبا جاتی ہیں۔
اس ملک میں تو بڑے بڑوں کو انصاف نہیں ملتا چہ جائیکہ ایک ایسے شخص کو انصاف ملے کہ جو محض دس ہزار روپے کے عوض اپنی بچی یا بچے کو کسی بھی دور دراز اجنبی کے گھر ملازمت کے نام پر غلام رکھوانے پر ناخواندگی اور جبرِ معاش کے سبب مجبور ہے ۔
یہ کہانی زمین سے لگے انتہائی غریب ترین طبقے کی ہے کہ جس کی تعداد کروڑوں میں ہے اور اپنے تئیں زمین کے خدا بنے متوسط و بالائی طبقے کی ہے کہ جو جزا، سزا، وسائل اور مراعات سمیت ہر فائدہ مند شے پر قابض ہے۔ اس طبقے کے لئے کوئی بھی قانون چیتھڑے کے برابر ہے۔ اس طبقے میں سیاست کار، عسکری و غیر عسکری ریٹائرڈ و حاضر افسران، وکلا، کارپوریٹ منیجر، صحافی ، سماجی کارکن ، جج ، ڈاکٹر اور دیگر پڑھے لکھے خوشحال شعبوں کے عورت اور مرد مل جائیں گے کہ جن میں سے بہت سوں کی نگاہ میں کم سن ملازم اور کچرا ایک برابر ہے ۔
کیا کسی کو تیرہ سالہ مریم یاد ہے، جسے لاہور کینٹ میں ایک پڑھے لکھے جوڑے نے کسی غلطی پر بازو جلا کے سزا دی تھی یا سات سال کی زہرہ یاد ہے جسے اس کے مالک نے راولپنڈی کے اپنے گھر میں کسی غلطی پر مار مار کے ہلاک کر دیا ۔ کسی کو سولہ سالہ عظمٰی یاد ہے جسے اس کے مالک اور مالکن نے لاہور میں قتل کر کے کچرے کے ڈھیر پھینک دیا ۔ دس سالہ عمران یاد ہے، جسے فریج سے کھانا بلا اجازت نکال کے کھانے کے جرم میں گلا گھونٹ کے مار دیا گیا۔ یا پھر وہ کم سن ملازمہ کہ جس کی گود سے مالکن کی بچی زمین پر گر گئی تو اس کے بدلے ملازم بچی کو مالکن نے خود ہی موت کی سزا دے ڈالی۔یا پھر وہ بچی کہ جس سے کچن میں فرائنگ پین الٹ گیا تو مالکن نے یہی گرم تیل اس کے جسم پر ڈال دیا۔
کسی کو بارہ سالہ طیبہ یاد ہے، جسے اس کے مالک ایڈیشنل جج اور اس کی اہلیہ نے اسلام آباد کے اپنے گھر میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور میڈیا میں یہ معاملہ اچھلنے کے سبب عدالت کو اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا پڑا۔ یہ غالباً واحد کیس تھا جس میں کسی بااثر اور اس کی اہلیہ کو تین برس قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں اعلٰی عدالت نے ایک برس کر دیا۔
بین الاقوامی ادارہِ محنت آئی ایل او نے سالِ گذشتہ میں اندازہ لگایا تھا کہ پاکستان میں اس وقت چودہ برس یا اس سے کم عمر کے لگ بھگ پونے تین لاکھ بچے گھروں میں کام کر رہے ہیں جبکہ پندرہ برس سے کم عمر کا بچہ کسی بھی پاکستانی قانون کے تحت گھریلو ملازم نہیں رکھا جا سکتا یا اس سے کوئی خطرناک کام نہیں کروایا جا سکتا مگر والدین یوں مجبور ہیں کہ ریاست نہ ان کی تعلیم کا تسلی بخش انتظام کرتی ہے اور نہ ہی خاندان کی اپنی معیشت اس قابل ہے کہ وہ تمام بچوں کا بوجھ سہار سکے۔
جبکہ نو عمر بچے اور بچیوں کو خوش حال طبقات اس لئے ترجیحاً گھریلو ملازم رکھنا پسند کرتے ہیں کہ انہیں دبانا ڈرانا اور جانوروں کی طرح کام لینا نسبتاً آسان ہے ۔ یہ بچے روزانہ کی بنیاد پر اپنے پر ہونے والے جسمانی و نفسیاتی تشدد کے بارے میں بھی کسی کوکھل کے نہیں بتا سکتے اور نہ ہی انہیں اپنے حقوق کے بارے میں زرہ برابر آگہی ہے ۔
خود متعلقہ ریاستی ادارے اور عام لوگ بھی گھریلو ملازموں پر تشدد کو زندگی کی ایک روزمرہ حقیقت سمجھ کے قبول کر لیتے ہیں تاوقتیکہ کسی بچے کی موت ہو جائے یا وہ بری طرح تشدد کا نشانہ بننے کے سبب نظروں میں آ جائے۔ ویسے بھی ہر چوتھے پاکستانی شہری گھر میں کوئی نہ کوئی گھریلو ملازم یا ملازمہ ہے تو پھر کون ان کے حقوق یا ان پر ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھائے گا یا اسے کوئی سنگین مسئلہ سمجھے گا ؟
گھریلو ملازموں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والے نوبیل انعام یافتہ کارکن کیلاش ستھیارتھی کے بقول جب تک ہر بچے کی لازمی تعلیم کا انتظام نہیں ہوتا ان کمسنوں کی غلامی ختم نہیں ہو سکتی اور جب تک ان بچوں کا معاشی مستقبل غیر محفوظ ہے وہ تعلیم گاہوں میں نہیں جا سکتے۔
گویا ایک شیطانی چکر ہے جسے توڑنے کے لئے چٹان جیسا سیاسی عزم درکار ہے اور عملاً اس کایا کلپ کے کوئی آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔