خون کے ہر قطرے کا حساب لیا جائے گا، پاکستانی فوجی سربراہ
17 فروری 2017پاکستان میں کئی ماہ کے سکون کے بعد رواں ہفتے یکے بعد دیگرے دہشت گردانہ حملے کیے گئے ہیں جن میں خودکش حملے بھی شامل ہیں۔ ان حملوں کی ذمہ داری پاکستانی طالبان سے الگ ہونے والے ایک گروپ جماعت الاحرار اور دولت اسلامیہ کی طرف سے قبول کی گئی ہے۔
گزشتہ شب پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے شہر سہون شریف میں واقع ایک صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار کے باہر ایک خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں 70 افراد ہلاک ہوئے جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔ اس حملے کی دہشت گرد گروپ داعش نے قبول کی ہے۔
سہون شریف میں قائم ہسپتال کے ڈاکٹر معین احمد کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 75 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ زخمی ہونے والے 250 افراد میں سے 50 کی حالت تشویشناک ہے، لہذا خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے اس حملے کو ’’ترقی کرتے ہوئے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے‘‘ والے پاکستان کے مستقبل پر حملہ قرار دیا۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ملک کی حفاظت کے لیے ’’ہر ممکن اقدام‘‘ کیا جائے گا۔
پاکستانی فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن میں مزید شدت لائی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ خون کے ہر ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔ پاکستان میں 2014ء کے وسط میں شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن ضربِ عضب کے بعد ملک میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی تھی۔ تاہم رواں ہفتے پاکستان کے مختلف علاقوں میں مسلسل دہشت گردانہ حملے کیے جا رہے ہیں۔ لاہور میں منگل کے روز ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
شدت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن، درجنوں ہلاک
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر سہون شریف میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد ملکی سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے تین پاکستانی اہلکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان بھر میں شدت پسندوں کے خفیہ ٹھکانوں پر چھاپوں اور فائرنگ کے تبادلے میں 39 مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
ان اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ گزشتہ کیے جانے والی ان مختلف کارروائیوں کے دوران 47 مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔