خڑ قمر ہلاکتیں: پی ٹی ایم رہنماؤں کے خلاف کیس ختم
14 اکتوبر 2020بدھ کو مقدمے کی سماعت ایبٹ آباد میں قائم خیبر پختونخوا ہاؤس میں ہوئی۔ بنوں کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے حکومتی درخواست کے تحت کیس خارج کر دیا۔ حکومت نے عدالت کو یہ کیس واپس لینے کی درخواست اس سال مارچ میں دے دی تھی۔
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے عدالتی احکامات کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ان پر اور علی وزیر پر فوجیوں کو مارنے اور بم حلموں کے الزامات لگائے گئے تھے جبکہ میڈیا کی شخصیات اور حکومتی وزراء ان الزامات کو سچ بنا کر پیش کرتے رہے۔
تاہم انہوں کہا کہ آج وہ اور ان کے ساتھی سرخرو ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عزت اور ذلت 'اوپر والے‘ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
دونوں ارکان اسمبلی کے خلاف اس مقدمے کا تعلق پچھلے سال 26 مئی کو شمالی وزیرستان کے علاقے خڑ قمر میں سکیورٹی فورسز کی چوکی کے قریب پاکستانی فوج اور پی ٹی ایم کے مظاہرین کے درمیان محاذآرائی سے تھا۔ فائرنگ کے اس واقعے میں پندرہ افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے تھے۔
پاکستانی حکام نے ان ہلاکتوں کے لیے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا اور بعد میں انہیں گرفتار کر کے کئی ماہ جیل میں رکھا گیا تھا۔
پی ٹی ایم نے اس واقعے کی ذمہ داری سکیورٹی فورسز پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ فائرنگ کا آغاز چیک پوسٹ سے ہوا تھا اور مظاہرین غیرمسلح تھے۔ قبائلی عوام کا یہ احتجاج علاقے میں فوج کی مبینہ زیادتیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے عدالت کی طرف سے پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے خلاف 'جعلی‘ مقدمہ ختم کیے جانے کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم انہوں نے ان تمام افسران اور میڈیا کی شخصیات کی جواب دہی کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے ان کے مطابق دن رات جھوٹے الزامات لگائے اور پی ٹی ایم کو بدنام کیا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے سابق رہنما اور سابق رکن اسمبلی افراسیاب خٹک نے کہا کہ دو قابل عزت اراکین اسمبلی کے خلاف جھوٹے مقدمات کا خارج ہونا کافی نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ خڑ قمر میں درجن سے زائد ہلاکتوں کی سچائی جاننے کے لیے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے۔
اسی طرح سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر نے بھی کہا کہ اس معاملے پر ڈِس انفارمیشن پھیلانے والے ٹی وی چینلوں کو معافی مانگنا چاہیے۔