خیبر پختونخوا: غیر مسلم اقلیتیں خوف اور مشکلات کا شکار
17 اکتوبر 2014خیبر پختونخوا کی اقلیتوں کی طرف سے ان تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ مسیحی، ہندو، سکھ اور دیگر غیر مسلم لڑکیاں پسند کی شادی کے لیے اسلام میں داخل ہوکر دوسری شادی کرلیتی ہیں۔ یوں ان لڑکیوں کا مسلمان ہونے کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں ہورہا ہے۔ ان واقعات کی ایک وجہ شادی اور علیحدگی کے حوالے سے ان اقلیتوں کے لیے الگ سے قوانین کی عدم موجودگی بھی ہے۔
ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں پختون روایات کی وجہ سے خیبر پختونخوا میں اس طرح کی شادیوں پر والدین اور رشتہ دار بدنامی کی خوف سے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اور خاندان سے بغاوت کرنے والوں کے ساتھ روابط ختم کر دیے جاتے ہیں۔ ملک میں قانون نہ ہونے کی وجہ سے والدین یا شکوہ کرنے والوں کوعدالت سے کوئی ریلیف ملنے کی اُمید بھی نہیں ہوتی کیونکہ ان کے پاس شادی کا کوئی ثبوت تک موجود نہیں ہوتا۔
آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے چیئرمین ہارون سرب دیال نے ڈوئچے ویلے کو اس بارے میں بتایا، ”اس وقت میرج رجسٹریشن لاء نہ ہونے کی وجہ سے فورسڈ کنورژن کی شرح بہت زیادہ ہے اور لوگ آسانی سے مذہب کو قبول کرنے سے سمجھ لیتے ہیں کہ نکاح بھی ٹوٹ گیا اور انہیں عدالت سے بھی کسی چارہ جوئی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہاں تک کہ ہماری کمیونٹی کے بہت سارے لوگ مسیحی، ہندو اِسے ایک بہترٹولز(ذریعہ) سمجھتے ہوئے کہیں بھی پسند کی شادی کرلیتے ہیں۔ شادی شدہ لوگ بھی شادی کرنے کے لیے اسلام کے دائرے میں آجاتے ہیں وہ نکاح پر نکاح کرلیتے ہیں جس کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔‘‘
پاکستان میں 2008ء سے اقلیتیوں کے لیے میرج ایکٹ کے تحت ایک ایسا قانون سامنے لا نے پر کام کا آغاز کیا گیا جو ہندو، مسیحی اور سکھوں سمیت دیگر اقلیتوں کی شادی کی رجسٹریشن اورعلیحدگی کے مسائل کو حل کرسکے۔
پشاور ہائی کورٹ کے قانون دان محمد معروف متھا کا کہنا ہے، ’’پاکستان میں رائج 1872ء ور1869ء کے قوانین کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو قانون سازی کا اختیار ملنے کے باوجود اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ شادی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے شادی شدہ خواتین بھی اغواءکی جاتی ہیں جبکہ جبری شادی اور شادی کے لیے مذہب کی تبدیلی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔‘‘
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے اقلیتی اُمور کے وزیر سردار سورن سنگھ سے جب ڈوئچے ویلے نے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا، ’’یہ خالصتاﹰ مرکزی حکومت کا معاملہ ہے کیونکہ اگر کوئی قانون سازی ہوتی ہے اور وہ بھی ایسی جومذہبی قانون سازی ہو تو یہ پورے ملک کے لیے یکساں ہونی چاہیے کیونکہ اگر ایک صوبے میں قانون بنایا جاتا ہے اور دوسرے صوبے کے لوگ اسے قبول نہیں کرتے تو وہ دوسرا قانون بنائیں گے۔ مثلاﹰ اگر ہندو یا کرسچین میرج ایکٹ بنتا ہے اور دوسرے صوبے میں یہ مختلف ہوں تو جب پنجاب کی لڑکی سندھ بیاہی جائے گی تو کس ایکٹ(قانون) کے تحت وہ وہاں جائے گی۔ اس طرح کے قوانین جس میں مذہب کا اثر بھی ہو بنانے میں ہمیں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔‘‘
پاکستان میں اقلیتیوں کی تعداد 1.6ملین سے زائد ہے۔ سب سے بڑی اقلیتی آبادی ہندو اور مسیحی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں بڑی تعداد میں سکھ بھی رہائش پذیر ہیں۔ یہاں جبری شادیاں تو نہیں لیکن پسند کی شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے جس نے والدین کو پریشان کردیا ہے۔