1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمپاکستان

خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈرز کے خلاف جان لیوا تشدد جاری

23 اکتوبر 2024

تازہ واقعے میں مسلح افراد نے مردان میں دو ٹرانس جینڈر افراد کو ان کے گھر میں داخل ہو کر قتل کر دیا۔ ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ رواں برس اب تک کے پی میں نو ٹرانس جینڈرز کو قتل کیا جا چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/4m97j
پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف تشدد کی لہر میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے
پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف تشدد کی لہر میں اضافہ دیکھا جا رہا ہےتصویر: Fareed Khan/AP Photo/picture alliance

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں پولیس کا کہنا ہے کہ  دو ٹرانس جینڈر افراد کو ان کے  گھر میں گھس کر قتل کرنے کی ایک حالیہ واردات میں ملوث ہونے کے شبے میں دو افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مقامی پولیس چیف فہیم خان نے کہا کہ یہ ہلاکتیں اتوار کی رات صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں ہوئی تھیں۔

 مردان کے پی کے صوبائی دارالحکومت پشاور سے تقریباً 50 کلومیٹر (30 میل) مشرق میں واقع ہے۔

اس واقعے کو پاکستانی قدامت پسند معاشرے میں ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پولیس کے مطابق ان تازہ ہلاکتوں  کے پس پردہ محرکات واضح نہیں ہیں اور افسران ابھی تک تفتیش کر رہے ہیں۔ مقتولین کو مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ فہیم خان نے بتایا  کہ دوہرے قتل کی اس واردات کے شبے میں دو  افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، لیکن انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔ خان نے اس بات کی تصدیق یا تردید کرنے سے بھی انکار کیا کہ آیا گرفتار کیے گئے افراد براہ راست اس حملے میں ملوث تھے۔

پشاور میں ٹرانس جینڈر برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے خلاف ہونے ہونے والے تشدد پر سراپا احتجاج ہیں
پشاور میں ٹرانس جینڈر برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے خلاف ہونے ہونے والے تشدد پر سراپا احتجاج ہیںتصویر: Faridullah Khan

مسلم اکثریتی پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کو اکثر ہراسانی، بدسلوکی اور حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ افرادنام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے متاثرین میں بھی شامل ہوتے ہیں،  جنہیں رشتہ داروں کی طرف سے جنسی افعال میں ملوث ہونے کی سزا دینے کے لیے مار دیا جاتا ہے۔

تاہم، پاکستان کی پارلیمنٹ نے 2018 میں ٹرانس جینڈر افراد کے بنیادی حقوق کو محفوظ بنانے کے لیے ٹرانس جینڈر افراد (حقوق کا تحفظ) نامی ایکٹ کو منظور کیا تھا، جس میں انہیں قانونی طور پر اپنی جنس کی شناخت کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ لیکن ملک میں بہت سے لوگوں کے جنس اور جنسیت پر عقائد بہت راسخ ہیں اور وہ ٹرانس جینڈر افراد  کو جنیست کی اپنی تعریف سے باہر رکھتے ہیں۔

 ٹرانس جینڈر افراد میں سےکچھ پیسے کمانے کے لیے بھیک مانگنے، رقص کرنے اور یہاں تک کہ جسم فروشی پر مجبور ہیں۔ اس کے باجود انہیں اپنی زندگیوں پر حملوں کا خوف بھی رہتا ہے۔خیبر پختونخوا میںٹرانس ایکشن رائٹس گروپ کی صدر فرزانہ جان نے کہا کہ جنوری سے اب تک صوبے میں  کیے گئے جان لیوا حملوں میں مزید نو ٹرانس جینڈر افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس براداری کے خلاف تشدد کی ایک وجہ ملزمان کا قانون کی گرفت سے بچ جانا ہے
ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس براداری کے خلاف تشدد کی ایک وجہ ملزمان کا قانون کی گرفت سے بچ جانا ہےتصویر: Faridullah Khan

 انہوں نے کہا کہ پچھلے مقدمات میں ملوث کسی بھی حملہ آور کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ ان کے بقول  اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ استغاثہ نے ان مقدمات کی سنجیدگی سے پیروی نہیں کی۔ ٹرانس جینڈرز  نے حملہ آوروں کو گرفتار نہ کرنے کی صورت میں احتجاج کرنے کی دھمکی دی ہے۔

 جان نے کہا، ''ہم نے پولیس کو مردان میں تازہ ترینہلاکتوں کے ذمہ داروں کو گرفتار کرنے کے لیے تین دن کی مہلت دی ہے۔ اگر ہماری برادری کے دو افراد کے قاتلوں کو گرفتار نہ کیا گیا تو ہم ریلیاں نکالیں گے۔‘‘

پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد کے بارے میں کوئی صحیح اعداد و شمار موجود نہیں ہیں لیکن جان نے اندازہ لگایا کہ ان میں سے تقریباً 75,000 خیبر پختونخوا میں رہتے ہیں۔

ش ر ⁄ اا (اے پی)

ٹرانس جینڈر افراد بھی بھتا خوروں کا ہدف