خیبر پختونخواہ : ’ کرسٹل‘ نامی نشہ مہنگا بھی خطرناک بھی
4 فروری 2016ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں زیادہ تر منشیات کی ترسیل شمال مغربی قبائلی علاقوں اور ہمسایہ ملک افغانستان سے ہوتی ہے۔ ان منشیات میں ہیروین، ہشیش (چرس)، ہیروئن، کوکین اور اوپیم وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا گزر خیبر پختونخوا سے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے یہاں منشیات کے عادی افراد کی تعداد بھی زیادہ ہے۔
پشاور میں قائم ایک فلاحی ادارے دوست فاونڈیشن کی رابطہ کار حنا خان کہتی ہیں کہ ان کے ادارے کے پاس قریب پانچ سو ایسے مریض رجسٹر ہیں جو کہ منشیات کے استعمال سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں ایک سو تک ایسے افراد ہیں جن کی عمریں چھ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہیں، جوکہ ایک تشویش کی بات ہے۔
’’ہمارے ادارے کے پاس صوبہ بھر سے والدین اور بعض اوقات دوسرے لوگ ایسے افراد کو لاتے ہیں جوکہ منشیات کی لَت میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جوکہ مختلف نشہ آور اشیا سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، صوبے میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جوکہ اس لعنت میں بری طرح سے مبتلا ہیں۔‘‘
حناخان مزید کہتی ہے کہ اس خطے میں ہر قسم کے منشیات کا استعمال کیا جاتا ہے، تاہم ہشیش یا چرس کا استعمال ہر طبقہ و عمر کے افراد میں عام ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ جہاں ایک طرف ہشیش آسانی کے ساتھ دستیاب ہے اور نوجوان اس کا تشویش ناک حد تک استعمال کرتے ہیں وہیں نوجوانوں، خاص طور پر طلبہ میں، منشیات کی ایک نئی قسم ’آئس یا کرسٹل میتھ ‘(میتھ ایمفیٹامین) کے استعمال کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے، جو کہ ہشیش سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ’’زیادہ تر طالب علم میتھ کا استعمال اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ زیادہ دیر تک پڑھائی کرسکیں، کیوں کہ اس کے استعمال سے نیند ختم ہوجاتی ہے۔ اس کا استعمال لڑکوں کے علاوہ یونیورسٹیوں کی طالبات بھی کرتی ہیں۔ ہمارے پاس ایسے کیسز موجود ہیں۔‘‘
آئس، یا کرسٹل میتھ کہلانے والا یہ مادہ مقامی سطح پر ایک کیمیائی عمل کے ذریعے ایفیڈرین سے بنایا جاتا ہے جوکہ وقتی طور پر توانائی دینے کے ساتھ ساتھ انسان کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر نقصان پہنچاتا ہے۔
ڈاکٹر عالم زیب خان کہتے ہیں کہ گوکہ ہر نشہ آور چیز نقصان دہ ہے لیکن میتھ چونکہ قدرتی نہیں ہے اور اس کو ایک کیمائی عمل کے ذریعے عمل میں لایاجاتا ہے اس لیے اس کے نقصانات بھی زیادہ ہیں۔ ’’نوجوانوں میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے، اس کی روک تھام کے لیے خاطرخواہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ آئس کی وجہ سے انسان پھیپھڑوں، جسمانی کمزوری، گردوں اور دماغی امراض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔‘‘
پشاوریونیورسٹی کے ایک طالب علم نے نام محفی رکھتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ برس ہاسٹل میں اس نے دوستوں کے ساتھ مل کر ہشیش (چرس) کا استعمال شروع کیا۔ ’’یہ ایک بہت ہی غلط فعل تھا، شروع میں ہم پڑھائی کے بوجھ کی وجہ سے نشہ کرتے تھے، لیکن بعد میں ہم اس کے عادی بن گئے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے طالب علم اور نوجوان بے روزگاری اور معاشی دباؤ کی وجہ سے مختلف منشیات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے بقول انہوں نے خود کبھی آئس کا استعمال نہیں کیا، لیکن اپنے دوستوں کو اس کا استعمال کرتے دیکھا ہے، ’’میرے دوست بتاتے ہیں کہ اس سے انسان تروتازہ ہوجاتا ہے، وہ آئس مشروبات یا پھر سگریٹ کے ساتھ پیتے ہیں۔ یہ بالکل کوکین کی طرح کام کرتی ہے۔‘‘
صوبائی حکومت صوبے میں منشیات کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے، تمام قبائلی علاقوں سے ملنے والے انٹری پوائنٹس پر باقاعدہ چیکنک کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ منشیات کنٹرول ایکٹ(9CNSA) 1997کے تحت منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کے لیے سزاؤں کا بھی تعین کیا گیا ہے۔
ایک اعلیٰ پولیس اہلکار انسپکٹر ہمایون خان کے بقول، منشیات کی نشاندہی کے بعد وزن کے مطابق نقد جرمانے یا کم ازکم تین سال سے عمر قید تک کی سزا یا پھر دونوں ہوسکتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اسٹوڈنٹس کے معاملے میں نرمی سے کام لیا جاتا ہے۔ ''ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کا مستقبل خراب نہ ہو، ان کو سدھرنے کا موقع دیا جاتا ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو سی آر پی سی کے دفعات، 106, 107, 108, 109 اور 110کے مد میں ان کو پابندکیا جاتا ہے۔‘‘
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر طلبہ اور دوسرے کم عمر افراد کو بھی جیلوں میں قید کرنے کی سزائیں سنائی جائیں تو پہلے سے بھرے پڑے جیلوں پر مزید بوجھ پڑے گا۔