خیبرپختون خوا: خواجہ سراؤں کی فنی مہارت کے لیے کروڑوں روپے
15 جون 2016خیبر پختون خوا کے صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید نے گزشتہ روز صوبائی بجٹ، اسمبلی میں پیش کیا۔ 505 ارب روپے کے اس صوبائی بجٹ میں خواجہ سراؤں کی بہبود کے لیے 20 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی۔
ملک بھر کے خواجہ سراؤں نے جہاں اس اقدام کو سراہا ہے وہیں اس بجٹ میں ان کے لیے رکھی گئی رقم کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار حکومت نے خواجہ سراؤں کو بھی اس معاشرے کا حصہ مان لیا ہے، اوران کی فلاح و بہبود کو بھی سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ بنا لیا ہے۔
خیبرپختون خوا کے ٹرانس ایکشن الائنس کی صدر فرزانہ جان کا ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کی برادری صوبائی حکومت کے اس اقدام سے کافی مطمئن ہے، وہ سمجھتی ہے کہ اس رقم کی مدد سے صوبہ میں مقیم تقریبا پچاس ہزار خواجہ سراؤں کے فلاح وبہبود کے لئے کام کیا جائے گا۔
فرزانہ جان کے بقول،’’گوکہ بجٹ پیش کرنے کے دوران وزیرخزانہ مظفر سید نے باقاعدہ طور پران کی برادری کا نام لے کر اور ان کے لیے ویکیشنل ٹرینگ سینٹر اور بحالی کا ادارہ قائم کرنے کا کہا ہے، لیکن اس کے علاوہ کسی قسم کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں‘‘۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’یہ ایک تاریخی بجٹ ہے، جس میں پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے، جوکہ یقینا صوبائی حکومت اور ہمارے لوگوں کے لیے فخر کی بات ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ یہ رقم ہمارے مشورے سے استعمال ہونی چاہیے۔‘‘
فرزانہ کہتی ہیں کہ موجودہ وقت میں قانونی تحفظ اور ہسپتالوں میں ان کے علاج کے لیے وارڈز کا قیام ، ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے، ’’حکومت کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہم لوگوں کو اعتماد میں لے اور یہ رقم اس جگہ صرف کریں جہاں اس کی ضرورت زیادہ ہو۔‘‘
صوبے میں شی میلز یا خواجہ سراؤں پر پے درپے حملوں کے بعد صوبائی وزیر مشتاق غنی پہلے ہی سے حکومت کی جانب سے خواجہ سراؤں کو باعزت روزگار، ان کے تخفظ اور فلاح وبہبود کے لیے فنڈ کے مختص ہونے کا اشارہ دے چکے تھے۔
حکومت کی جانب سے ابتدائی اعلانات اور وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے مطابق اس فنڈ سے خواجہ سراؤں کی فنی مہارت اور بحالی کے لیے ایک سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس بیان کی وجہ سے بھی بیشتر خواجہ سراؤں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔
بائیس سالہ خواجہ سرا عدنان کا خیال ہے کہ اگر حکومت فنی تعلیم کے لیے سینٹر ان کے سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہماری ساری عمر ڈانس اور تفریحی پروگراموں میں گزری ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ کوئی بھی شی میل اس قابل ہے کہ وہ کوئی اور ہُنر سیکھ سکے کیونکہ اب یہی ہمارا پیشہ اور ضرورت ہے۔‘‘
عدنان کے مطابق، اگر فنی مہارت کے سینٹر میں ان کو، یا ان کے ذریعے دوسرے لوگوں کو ڈانس سکھانے کا بندوبست کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ ’’ڈانس بھی ایک فن ہے، اور اس فن میں ہم مہارت بھی رکھتے ہیں اور یہ ہمارا پیشہ بھی ہے۔‘‘
خواجہ سراﺅں کے حقوق کے لیے قائم تنظیم بلیو وائنز کے کوارڈینیٹر قمر نسیم کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اعلان تو ہوگیا ہے لیکن ان کے ادارے کو اس بات پر تخفظات ہیں کیونکہ بجٹ کے دستاویزات میں کہیں بھی الگ اور واضح طور پر اس رقم کی نشاندہی نہیں ہوئی۔ تاہم بجٹ تقریر کے دوران اور اور بعد میں وزیر خزانہ باقاعدہ طور پر بیس کروڑ روپے کا اعلان کرچکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر خواجہ سراؤں کے لئے فنی مہارت اور بحالی کے سینٹرز کے بارے میں انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’فنی تعلیم کا دائرہ بہت وسیع ہے، کون سے پیشے خواجہ سراؤں کے لیے بہتر ہیں اور کس چیز میں ان کو دلچسپی ہے؟ یہ فیصلہ ان لوگوں کو شامل کیے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
قمر نسیم کا مزید کہنا ہے کہ اگر اس قسم کے اقدامات بغیر کسی تحقیق کے اٹھائے گئے تو یقینا حکومت کے قائم کردہ فنی سینٹر ویران رہیں گے۔
ہزاروں شکوک اور دعوے اپنی جگہ لیکن فرزانہ جان سمجھتی ہیں کہ جیسے گزشتہ روز بجٹ میں تاریخی فیصلہ کیا گیا اسی طرح امید ہے کہ حکومت کی جانب سے مختص یہ رقم ان کی برادری کے فلاح وبہبود کے لیے ہی خرچ کی جائے گی۔