خیبرپختونخوا، حکمرانی کے لیے ایک مشکل صوبہ
10 مارچ 2018سن دو ہزار سولہ میں مینگورہ میں پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ سن دو ہزار اٹھارہ تک کے پی کے کو ایک ’ماڈل صوبے‘ میں تبدیل کر دیں گے۔ انہوں نے سن دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں بھی ایسے ہی دعوے کیے تھے۔ کئی برس برطانیہ میں گزارنے والے عمران خان نے اس صوبے میں مغربی طرز حکمرانی اور سماجی فلاح و بہبود کا نظام متعارف کروانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
اب سن دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات قریب آ رہے ہیں اور تحریک انصاف کے سربراہ نے ایک مرتبہ پھر یہ وعدہ کیا ہے کہ وزیراعظم بننے کی صورت میں وہ پاکستان کی ’از سر نو تعمیر‘ کریں گے، اسے معاشی طاقت بناتے ہوئے کرپشن کا خاتمہ اور ملک بھر میں اچھی حکمرانی کی مثال قائم کریں گے۔ اگر تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں پانچ سالہ کارگردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانے میں آسانی رہے گی کہ وہ ملکی سطح پر ایسی بڑی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے مشیر شوکت یوسفزئی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اپنے صوبے میں بنیادی طور پر ہم نے صحت اور تعلیم کے شعبوں پر توجہ دی ہے۔ ہم پولیس میں بھی اصلاحات لے کر آئے ہیں۔ سابق عوامی نیشنل پارٹی بدعنوان تھی اور لوگوں نے ووٹ کی طاقت سے انہیں نکال دیا۔ دوسری طرف بہتر کارکردگی کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ ہماری جماعت کا حصہ بن رہے ہیں۔‘‘
لیکن پشاور کے صحافی شمیم شاہد کے مطابق کے پی کے حکومت کی کارکردگی ’مایوس کن‘ رہی ہے۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’پی ٹی آئی کے عہدیداروں کے مطابق صوبے میں تعلیمی معیار بہتر ہوا ہے لیکن ماہرین تعلیم اس سے بالکل برعکس سوچتے ہیں۔ عوامی صحت اور دیگر سرکاری محکموں کی صورت حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ صوبے بھر کے سرکاری شعبے ہڑتالوں سے متاثر ہیں۔ لوگ اسلام آباد میں عمران خان کے گھر کے باہر احتجاج کر چکے ہیں۔‘‘
پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا نعرہ پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان کرپشن اسکینڈلز کی زد میں ہیں۔ ایسے میں اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے ایک کارکن کا کہنا تھا کہ عوام کی بڑی تعداد نے کرپشن، انسداد دہشت گردی اور سیاست میں اقرباء پروری کے خلاف خان کے موقف کی حمایت کی ہے، ’’ خان پر کوئی کرپشن کے الزامات نہیں ہیں، ان کے بیرون ملک اثاثے نہیں ہیں۔‘‘
عمران خان نے صوبہ خیبرپختونخوا میں کرپشن اور تیز انصاف کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا لیکن اسلام آباد کے مصنف اور سماجی کارکن ارشد محمود کہتے ہیں، ’’زیادہ تر چیزیں ماضی کی طرح ہی چل رہی ہیں۔ خان کے پارٹی ورکر خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہوئے انتظامیہ کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔ اگر پی ٹی آئی کے ہی کارکن قانون کو نہیں مانتے تو حکمرانی میں بہتری کیسے پیدا ہو گئی ہے؟‘‘
خیبر پختونخوا کا افغانستان کی سرحد پر واقع ہے۔ مسلح گروپوں اور قبائلی علاقوں کی وجہ سے اس صوبے میں بہتر حکمرانی کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اچھی حکمرانی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس صوبے میں دہشت گردی کی کارروائیاں کم ہوں۔ اسلام آباد کے ایک سیاسی تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے کارکن عاطف افضل اس حوالے سے کہتے ہیں، ’’دہشت گردی سے نمٹنا بنیادی طور پر وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن مجموعی صورتحال میں بہتری کے لیے صوبائی حکومت کا بھی مرکزی کردار ہوتا ہے۔ اس حوالے سے خیبر پختونخوا کی حکومتی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جا سکتا ہے۔ پولیس اصلاحات کی وجہ سے کچھ بہتری آئی ہے۔‘‘
تاہم ان کا تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہنا تھا، ’’لیکن پی ٹی آئی نے انتہاپسندی کے بیانیے کے خلاف کچھ نہیں کیا بلکہ صوبے میں اپنی اتحادی جماعت اسلامی کے مطالبے پر تعلیمی نصاب میں بنیادی تبدیلیاں لاتے ہوئے اسے مزید مضبوط بنایا گیا۔‘‘
آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو اس صوبے میں نئے چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔ عاطف افضل کے مطابق، ’’میں سن دو ہزار پندرہ سے سولہ تک پشاور میں رہا ہوں اور اب بھی صوبے بھر میں بہت زیادہ سفر کرتا ہوں۔ میرے خیال سے اس مرتبہ پی ٹی آئی کے لیے سن دو ہزار تیرہ جیسی انتخابی کارکردگی دکھانا مشکل ہوگا۔‘‘
ایک دوسرے صحافی شمیم شاہد کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی کو اندرونی تقسیم کا بھی سامنا ہے، ’’بہت سے صوبائی قانون ساز اور چیف منسٹر عمران خان سے بغاوت کر چکے ہیں۔ اس صوبے میں پی ٹی آئی کی مرکزی اتحادی جماعت اسلامی سینیٹ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی حمایت کرنے سے ہچکچا رہی تھی۔ کم از کم چھ قانون سازوں نے سینیٹ کے انتخابات میں اپنی جماعت کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیے۔‘‘
اگر حالیہ پیش رفت کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی کیرئیر کے مزید ایک مشکل مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان اور ان کی جماعت کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کے ذریعے دوسرے صوبوں کو کوئی ’مثالی صوبہ‘ فراہم نہیں کر سکے، جیسا کہ چند برس پہلے وعدہ کیا گیا تھا۔