خیبرپختونخوا: طالبان کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف بڑا سرچ آپریشن
24 جون 2014قبائلی علاقوں کے سرحدی اضلاع میں شروع ہونے والےاس آپریشن میں پولیس کی بھاری تعداد حصہ لے رہی ہے۔ جدید آلات سے لیس پولیس کے ساتھ بم ڈسپوزل یونٹ کے اہلکار بھی ہیں جبکہ علاقائی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد بھی اس سرچ آپریشن کا حصہ ہے۔
پولیس کو ملنے والی اطلاعات کی روشنی میں مجموعی طور پر پشاور کے 1980 سے زائد مقامات کو حساس قرار دیا گیا۔ سکیورٹی کے چیک پوسٹوں میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ شہر کے چالیس علاقوں میں وقتاﹰ فوقتاﹰ سرچ آپریشن کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کی مہاجرین کی شکل میں شہری علاقوں داخلے کی اطلاعات ہیں۔ اگرچہ پولیس سکیورٹی خدشات کے باعث گرفتار ہونے والے افراد کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے تاہم یہ ضرور کہا کہ آپریشن کے دوران متعدد غیر ملکی بھی گرفتار کیے گئے ہیں۔
پشاور میں سرچ آپریشن کے سربراہ نجیب اللہ خان کا کہنا تھا، ’’اس آپریشن کے دوران ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کن علاقوں میں افغان یا جو قبائلی بغیر دستاویزات کے رہائش پذیر ہیں، کہیں ان میں کوئی مشکوک شخص تو نہیں اور جو ہیں ان سے پوچھ گچھ کررہے ہیں۔ یہاں ساڑھے چھ ہزار گھر ہیں اور یہاں اکثریت افغان مہاجرین یا پھر نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کی ہے۔ یہ مشکوک افراد کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہوسکتی ہے لہٰذا وہی چیک کرنے کے لئے یہ آپریشن شروع کردیا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔“
پشاور کی سرحدیں تین اطراف سے قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں سے متصل ہیں اس شہر میں جہاں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں وہاں قبائلی علاقون سے نقل مکانی والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ صوبائی حکومت کے پاس باہر سے آنے والوں کا کوئی مکمل ڈیٹا موجود نہیں ۔ صوبائی حکومت نے پہلی مرتبہ رسٹریکشن آن رینٹڈ بلڈنگ آرڈیننس کا قانون متعارف کیا ہے، جس کے تحت مالک مکان کو گھر کرایہ پر دینے والے کی تمام تر تفصیلات پولیس کو فراہم کرنا ہوں گی۔
پہلی مرتبہ صوبائی حکومت ایک ڈیٹا بینک بنا رہی ہے، جس میں باہر سے آنے والوں کی مکمل تفصیلات محفوظ ہوں گی۔ انسپکٹر جنرل پولیس ناصر درانی نے صوبہ بھر میں سرچ اینڈ سٹرائیک کے نام سے اسی طرز کا آپریشن شروع کرنے اور شمالی وزیر ستان میں جاری آپریشن کے نتیجے میں کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار رہنے کی ہدایات دی ہیں۔
ناصر درانی کا کہنا ہے، ”پشاور کو سب سے زیادہ خطرہ ہوگا۔ اس کی سکیورٹی پر دھیان دینا ہوگا۔ پشاور کی سکیورٹی اس سے متصل قبائلی علاقوں کے حالات کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگر وہاں حالات ٹھیک ہوں گے تو یہاں بھی امن ہوگا۔ ہم مجموعی حالات ٹھیک کرنے کے لئے منصوبہ بندی کر چکے ہیں پولیس، فرنٹئیر کانسٹبلری اور فوج ان سرحدی علاقوں میں مشترکہ گشت بھی کریں گے اور یہاں چیکنگ بھی کریں گے۔“
پولیس نے تاجروں اور ہوٹل مالکان کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ آس پاس کی سکیورٹی سے غافل نہ ہوں۔ روزانہ کی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ممکنہ طور پر پولیس کی رپیڈ ریسپانس فورس پانچ منٹ کے اندر اندر موقع پر پہنچے گی۔