خیبر پختونخوا کے ٹرانس جینڈر اپنا پیشہ چھوڑنے پر کیوں مجبور؟
30 نومبر 2024خیبرپختونخوا کا قدامت پسند معاشرہ بدامنی میں اضافے اور موسیقی کے پروگراموں میں کمی اورعدم تحفظ کا شکار ہے۔ ان حالات کے پیش نظر اس صوبے میں رہائش اختیار کیے ہوئے ٹرانس جینڈر کو اپنا پیشہ چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ سال رواں کے دوران نو ٹرانس جینڈر افراد کوقتل کیا گیا لیکن کوئی بھی قاتل گرفتار نہ ہوسکا۔
پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں ٹرانس جینڈر افراد کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ ایک طرف تو انہیں معاشرے میں قبول نہیں کیا جاتا دوسری جانب انکے خاندان یا گھر والے بھی انہیں ساتھ رکھنا باعث شرم سمجھتے ہیں اور انکے ساتھ رشتے ناطے توڑ دیتے ہیں۔ سماج کے ستائے ہوئے اس طبقے کو جہاں گھروالوں اور رشتہ داروں کی جانب سے حقارت اورنفرت کا سامنا ہے ، وہاں انہیں ریاست بھی وہ سہولیات فراہم نہیں کرتی جو معاشرے کے دوسرے افراد کو میسر ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں اپنی قومیت کے لیے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں خیبر پختونخوا کے قدامت پسند معاشرے میں ٹرانس جینڈرز کوزیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔
بھارت: خواجہ سراؤں کا پولیس فورس میں بھرتی کا مطالبہ
سال رواں کے دوران متعدد ٹرانس جینڈر افراد کو تشدد اور بد سلوکی کا نشانہ بنایا گیا، انہیں بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اورتشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی اور قبائلی اضلاع میں بدامنی کی وجہ سے زیادہ تر ٹرانس جینڈرز نقل مکانی کرکے پشاوراورملک کے دیگر شہروں میں منتقل ہوگئے جہاں انہیں روزمرہ اخراجات پورا کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے ۔ ان ٹرانس جینڈرز کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے جو ناچ گانا چھوڑ کر باعزت روزگار کے حصول کی خواہشمند ہے لیکن وسائل کی کمی ان کے آڑے آتی ہے۔
ایک اعلٰی تعلیم یافتہ ٹرانس جینڈر
دارالحکومت پشاورمیں ایک اعلٰی تعلیم یافتہ ٹرانس جینڈر افراد شیبا حسن ہیں ۔ شیبا نامی یہ ٹراسنجنڈر دس سال سے گھر پر سلائی کڑھائی کا کام کرتی رہی ہیں۔ آن لائن آرڈر پر خود کے ڈیزائن کردہ کپڑے فروخت کرتی ہیں اوراب انہوں نے پشاور کے پوش علاقے گل بہار میں ذاتی بوتیک کھول لی ہے۔ انہیں پہلے یہ خوف تھا کہ انہیں کوئی کرائے پردکان نہیں دے گا لیکن انہیں دکان بھی مل گئی ہے اور دکان کے مالک نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کے کاروبار کے کامیاب ہونے تک کرایہ نہیں لیں گے اورجب شیبا کے معاشی حالات بہتر ہوجائیں گے تب بھی وہ مناسب کرایہ وصول کریں گے۔ یوں شیبا حسن نے زندگی بھر کی جمع پونجی اکھٹا کرکے معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے لیے اپنا کاروبار شروع کیا۔ شیبا حسن نے ناچ گانا چھوڑ کرٹرانس جینڈرز سے جڑے فرسودہ خیالات کو ختم کرنے اور باعزت روزگار کمانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستانی ٹرانسجینڈرز کی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف قانونی لڑائی
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے شیبا حسن نے کہا، ''میری بھی خواہش ہے کہ دوسروں کی طرح باعزت طریقے سے رزق کماؤں اور معاشرے کے دوسرے افراد کی طرح عزت سے اپنا کاروبار کرسکوں۔ دس سال سے گھر پر سلائی کڑھائی کا کام کرتی رہی۔ بہت سارے لوگ آن لائن خریداری کرتے رہے اور اب وہ بوتیک آکراپنی پسند کے کپڑے وغیرہ کی خریداری کرسکیں گے۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ ہرفورم پر حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ٹرانس جینڈر کو باعزت روزگار کے لیے مالی معاونت کی جائے اور سرکاری ملازمتوں میں حصہ دیا جائے تاکہ یہ بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہوکرملک وقوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ انہوں نے کہا، ''مجھے بہت ہی اچھا رسپانس ملا اورمیں دیگر ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ایک مثال ہوں، جو اپنا کاروبار شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ وہ اب دوسرے ٹرانس جینڈرز کی بھی حوصلہ افرائی کرونگی۔
غیر سرکاری اداروں اور حکومت سے یہی درخواست ہے کہ جو ٹرانس جینڈر افراد اپنا کاروبار شروع کرنا چاہے انکی مالی مدد کی جائے کیونکہ ان میں سے کسی کے پاس بھی کاروبار شروع کرنے کے لیے سرمایہ نہیں ہے۔ شیبا حسن کا کہنا تھا،'' حکومت سرکاری ملازمتوں میں ٹرانس جینڈرز کے لیے مختص نشستوں کے اعلان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔‘‘
خیبر پختونخوامیں 75 ہزارٹرانس جینڈر
خیبر پختونخوا میں سرکاری طور پر ٹرانس جینڈر کے درست اعداد و شمار موجود نہیں لیکن ٹرانس جینڈر ایسوسی ایشن کی سربراہ فرزانہ اعوان کے مطابق صوبے میں 75 ہزار ٹرانس جینڈر رہائش پذیر ہیں۔ ٹرانس جینڈر افراد سراؤں کی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ انکے قومی شناختی کارڈز کی عدم موجودگی ہے جو زیادہ ترٹرانس جینڈر افراد کے پاس نہیں ہے۔ خاندانی مشکلات کی وجہ سے وہ شناختی کارڈ بنانے کے لیے مطلوبہ دستاویزات فراہم نہیں کرسکتے۔ پختونخوا میں دہشت گردی اور بدامنی کے واقعات کے نتیجے میں ٹرانسجنڈر کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غیرمحسوس طریقے سے صوبے کے زیادہ ترعلاقوں میں موسیقی کے پروگرامز پر پابندی ہے جسکی وجہ سے موسیقاروں اور فنکاروں سمیت ٹرانسجنڈر کومالی مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان: پہلی ڈیجیٹل مردم شماری، بے قاعدگیاں درست ہونے کی امید
روزگار کے لیے تربیت کی فراہمی
ٹرانس جینڈرز کو باعزت روزگار کی فراہمی کے لیے پختونخوا حکومت نے وقتاً فوقتاً تربیتی کورسز متعارف کروائے۔ اس دوران 300 سے زیادہ ٹرانس جینڈرز نے ووکیشنل ٹریننگ حاصل کی ہے۔ بعض نے بیوٹیشن کے کورسز کیے ہیں لیکن سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا کاروبار نہیں کرسکتے۔ تربیت یافتہ ٹرانس جینڈرز کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک چلی گئی۔ صوبائی حکومت نے ٹرانس جینڈرز کے لیے سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا کوٹہ بھی مختص کیا ہے تاہم اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹرانس جینڈرکو بھی سرکاری ملازمت ملنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ٹرانسجینڈر کے قتل میں ملوث افراد کی عدم گرفتاری
پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں میں 137 ٹرانس جینڈر قتل کیے گئے۔ خیبر پختونخوا میں سال رواں کے دوران 9 ٹرانس جینڈر افراد قتل ہوئے، متعدد اغوا ہوئے جبکہ بعض کو بھتہ وصولی کے بعد رہائی ملی، تاہم ٹرانس جینڈرز کے مطابق قتل میں ملوث کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی ۔ جبکہ وکلا بھی انکے کیسز میں دلچسپی نہیں لیتے ۔
خیبر پختونخوا کے ٹرانس جینڈر افراد کا دیرینہ مطالبہ پورا
خیبر پختونخوا حکومت نے حال ہی میں ایک سرکاری حکم نامہ جاری کیا ہے جسکے تحت سرکاری محکموں میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ملازمت کا کوٹہ مختص کردیا ہے۔ تقرریوں کے لیے ٹرانس جینڈر افراد کو محکمہ زکواۃ ، عشراور ترقی نسواں کے ساتھ رجسٹریشن کی ہدایت کی گئی ہے حکومت نے ٹرانس جینڈر افراد کی سرکاری محکموں میں بھرتی کرنے کا پہلا مرحلہ شروع کردیا ہے۔ ٹرانس جینڈر افراد کی تقرریاں ان محکموں میں کی جائیں گی جو محکمہ زکواۃ،عشراور ترقی نسواں کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں گے۔ مذکورہ احکامات کا نفاذ گریڈ 15 تک کی آسامیوں پر ہوگا ان آسامیوں پر ٹرانس جینڈر کی تقرری کے لیے انہیں مطلوبہ معیاراوراہلیت پر پورا اترنا ہوگا۔