دائیں بازو کی انتہا پسندی جرمنی کو کہاں لے جا رہی ہے؟
23 فروری 2016جرمن وزیر انصاف ہائیکو ماس نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا،’’ ہمیں نفرت کی بنیاد پر غیر ملکیوں پر کیے جانے والے حملوں سے متعلق مقدموں کو جلد از جلد نمٹانے کی ضرورت ہے تا کہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جا سکے‘‘۔ اس سلسلے میں سترہ مارچ کو ایک خصوصی اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں دائیں بازو کی شدت پسندی پر قابو پانے کے بارے میں صلاح و مشورے کیے جائیں گے۔ ماس کے مطابق،’’ اس اجلاس سے پہلے ہماری کوشش ہو گی کہ اس بارے میں اہم معاملات پر اتفاق رائے کر لیا جائے۔‘‘
جرمنی میں رواں سال کے دوران پناہ گزینوں کے مختلف مراکز پر اب تک 118 حملے ہو چکے ہیں۔ جرمن وزارت داخلہ کے مطابق ان میں سے ایک سو بارہ حملوں میں دائیں بازو کے شدت پسند ملوث تھے۔ اس بیان میں مزید بتایا گیا کہ ستائیس واقعات میں تشدد کا استعمال کیا گیا جبکہ تینتالیس میں صرف ساز و سامان کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ اکتیس واقعات ایسے تھے، جو صرف پروپگینڈا کے لیے کیے گئے تھے۔ جرمن وزارت نے اس رپورٹ میں پندرہ فروری تک کیے جانے والے حملوں کو شامل کیا ہے۔ تاہم اس کے بعد چند ایک ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔
ہائیکو ماس نے مزید کہا،’’ ہم غیر ملکیوں پر حملے کرنے والے افراد کو واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم جرمنی میں قانون کا ہر حال دفاع کریں گے۔‘‘ جرمن وزیر انصاف نے الٹرنیٹو فار جرمنی یعنی ’اے ایف ڈی‘ نے اس تناظر میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ جماعت ایک ایسے راستے پر چل رہی ہے، جس کی وجہ سے اسے آئینی عدالت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔’’ اے ایف ڈی دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت بنتی جا رہی ہے‘‘۔ ان کے بقول اے ایف ڈی اور اسلام مخالف تنظیم پگیڈا کے ہر حامی کو یہ علم ہونا چاہیے کہ وہ کس کا ساتھ دے رہا ہے۔
مشرقی جرمن صوبے سیکسنی میں گزشتہ اختتام ہفتہ پر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے مہاجرین کی ایک بس کا راستہ روکتے ہوئے نعرے بازی کی تھی۔ اس بس میں خواتین اور بچے بھی سوار تھے۔ اس کے علاوہ اسی صوبے کے ایک اور علاقے میں پناہ گزینوں کے ایک مرکز کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ آتشزدگی کے اس واقعے میں کوئی زخمی تو نہیں ہوا لیکن اس عمارت کے گرد جمع لوگ بڑھکتے شعلوں کو دیکھ کر تالیاں بجاتے ہوئے خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔