دارفور: باغی رہنما کی دی ہیگ کی عدالت میں پیشی
18 مئی 2009اقوام متحدہ کے مطابق اس تنازعے میں اب تک تین لاکھ انسان ہلاک ہوچکے ہیں۔ 41 سالہ بہارادریس ابوگردہ کو، جنہوں نے کل اتوار کے روزاس عدالت کے سامنے گرفتاری دی تھی، مغربی یورپی وقت کے مطابق سہ پہر تین بجے دی ہیگ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ابو گردہ کو اپنے خلاف سوڈان میں تعینات افریقی یونین کے امن مشن AMIS کے ارکان پرمسلح حملوں سے متعلق تین مختلف الزامات کا سامنا ہے۔
اس مہینے کے اوائل میں بند کمرے میں ہونے والی ایک ابتدائی سماعت میں عدالت کے ایک بینچ نے اپنی کارروائی میں کہا تھا کہ ابوگردہ کے خلاف ان الزامات کے قابل یقین ہونے کی کافی وجوہات ہیں کہ وہ مسلح حملوں، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے مرتکب ہوئے تھے۔
ابو گردہ کا تعلق سوڈانی قبیلے ذغاوہ سے ہے اور وہ ان چارافراد میں سے ایک ہیں جن پر دارفور کےتنازعے میں جنگی جرائم کےارتکاب کا الزام ہے۔ 41 سالہ ابوگردہ کے علاوہ یہ الزامات احمد محمد ہارون، علی محمد علی عبد الرحمان اورسوڈانی صدر عمر حسن البشیر پر بھی عائد کئے گئے ہیں۔ تاہم ابوگردہ وہ پہلےایسے ملزم ہیں جنہوں نے عدالت کے سامنےاپنی گرفتاری پیش کی۔
دی ہیگ میں ICC کی رجسٹرار Silvana Arbia کا کہنا ہے کہ ابو گردہ کے خود کو عدالت میں پیش کر دینے کے بعد ممکنہ طورپردیگر ملزمان بھی ایسا کرنے کا سوچ سکتے ہیں کیونکہ انہیں یقین یونا چاہئے کہ ان کے خلاف مقدمے کی کاررروائی غیرجانبدارانہ اور شفاف اندازمیں مکمل کی جائے گی۔ اس عدالت کے وکیل استغاثہ Luis Moreno Ocampo نے بھی ابوگردہ کی رضاکارانہ گرفتاری کوسراہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت سوڈان کے تنازعے میں ملوث تمام جماعتوں کا بین الاقوامی فوجداری عدالت سے تعاون انتہائی ضروری ہے۔
ابو گردہ پر جن حملوں کا الزام ہے ان میں سے ایک افریقی یونین مشن کے اہلکاروں پر29 ستمبر2007 کو Hanskanita کے مقام پر کیا گیا تھا۔ وکیل استغاثہ اوکامپو کے بقول اس واقعے میں باغیوں کی تحریک برائے انصاف اورمساوات کے تقریبا ایک ہزارمسلح ارکان نے 12 افریقی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ آٹھ فوجی شدید زخمی ہوئے تھے۔
اوکامپو کے مطابق باغیوں کا یہ حملہ ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کے ساتھ ساتھ ان لاکھوں شہریوں پر بھی مسلح حملے کے مترادف تھا جن کی حفاظت ان افریقی اہلکاروں کی ذمہ داری تھی۔