’داعش‘ اردن میں سرگرم ہو سکتی ہے
21 جون 2016اردنی بادشاہ شاہ عبداللہ ثانی نے اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ سرحد پر حملہ کرنے والوں کو آہنی ہاتھ سے جواب دیا جائے گا۔ شاہی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اس حملے کی مذمت کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ اردنی سکیورٹی و انتظامی اداروں کا اندازہ ہے کہ اِس حملے میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ ملوث ہو سکتی ہے کیونکہ اُسے عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپائی کا سامنا ہے اور اگلے محاذوں سے لوٹنے والے جہادی اردن کا رخ کر سکتے ہیں۔
اردن کی شام سے ملنے والی سرحد پر دھماکے میں اردن کی فوج کے کم از کم چھ اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ چودہ سکیورٹی اہلکاروں کے زخمی ہونے کا بتایا گیا ہے۔ عمان حکام نے بتایا ہے کہ یہ واقعہ آج منگل کو علی الصبح اردن کے مشرقی علاقے بیرم کی ایک مہاجر بستی کے قریب پیش آیا۔ اس بیان میں مزید بتایا گیا کہ دھماکا خیز مواد ایک کار میں نصب کیا گیا تھا۔ تاہم اس حملے کے بارے میں مزید تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
دو ہفتے قبل اردنی دارالحکومت عَمان کے شمال میں واقع خفیہ ادارے کے دفتر کی چیک پوسٹ پر ایسا ہی حملہ کیا گیا تھا اور اُس میں پانچ سکیورٹی اہلکاروں کی موت واقع ہوئی تھی۔ اردنی سکیورٹی ادارے سن 2014 سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مشتبہ کارکنوں کو حراست میں لینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نیوز رپورٹوں کے مطابق اردنی حکام کو گزشتہ کچھ عرصے سے تشویش لاحق ہے کہ شام اورعراق میں سرگرم دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے کارکن شامی مہاجرین کے بھیس میں مہاجر کیمپوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ عرب دنیا میں اردن کو سیاسی اعتبار سے ایک مستحکم ملک خیال کیا جاتا ہے۔ یہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف قائم امریکی عسکری اتحاد کا رکن بھی ہے۔ دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ‘ کی سرگرمیوں کے مرکز عراق اور شام کی سرحدیں بھی اِس کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
اردنی علاقے ’بیرم‘ میں ساٹھ ہزار سے زائد شامی مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اردن میں مہاجرین کا سب سے بڑا کیمپ زعتری ہے اور اس میں تراسی ہزار سے زائد شامی مہاجرین رکھے گئے ہیں۔ یہ کیمپ سن 2012 میں کھولا گیا تھا۔ اردنی حکام نے ایک اور مہاجر کیمپ سن 2014 میں الاذراق کے مقام پر کھولا ہے۔