داعش کا قبضہ ختم ہونے کے بعد موصل میں ریڈیو مقبول
22 جون 2018عراق کے تاریخی و تمدنی شہر موصل پر دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے کے دوران زیادہ تر مقامی ریڈیو اسٹیشن بند کر دیے گئے تھے اور جنہیں کھلا رکھا گیا، وہ صرف جہادی مواد بشمول پراپیگنڈا نشر کرتے تھے۔ داعش کے قبضے کے دوران ان میں کسی بھی ریڈیو سے کوئی دوسرا مواد نشر ہوتا تو ایسا کرنے والوں کو سخت سزا دی جاتی تھی۔
اس شہر کا قبضہ عراقی فوج نے چھڑا لیا ہے اور داعش کی شکست کے بعد شہر کی معاشرتی و ثقافتی صورت حال تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ اب موصل کی فضاؤں میں مقامی ایف ایم ریڈیوز نے ایک ہلچل کی فضا قائم کر رکھی ہے۔
ان ریڈیو چینلز پر نوجوان عراقی اپنی ذہانت کے ساتھ اپنے سامعین کو اپنی جانب راغب کیے ہوئے ہیں۔ کئی ریڈیو اسٹیشن چوبیس گھنٹے تفریحی پروگرام نشر کرتے ہیں جو ذہین نوجوانوں کی صلاحیتوں سے جگمگا رہے ہیں۔ ان نوجوان ایف ایم ڈی جیز میں کئی ٹین ایجر بھی ہیں۔ ایسی ہی ایک سولہ سالہ لڑکی نور طائی ہے اور وہ انتہائی مشاقی کے ساتھ اپنا پروگرام پیش کرتی ہے۔
رواں برس فروری میں موصل کا مرکزی ریڈیو اسٹین بحال کیا گیا اور اسی اسٹیشن پر نور طائی متفرق موسیقی کا پروگرام نشر کرتی ہے۔ اُس نے اپنے ریڈیو پر کمپیئر بننے کے شوق کی ابتدا ایک ٹیلنٹ شو میں شریک ہو کر کی تھی۔
اس ٹیلنٹ شو کا اہتمام ایک ثقافتی تنظیم الغد نے کیا تھا۔ الغد کا ریڈیو اسٹیشن شمالی عراق کے خود مختار کرد علاقے کے شہر اربیل میں واقع ہے۔ اسی شہر نے موصل پر داعش کے قبضے کے بعد بے گھر ہونے والے ہزاروں شہریوں کو پناہ دی گئی تھی۔
موصل شہر کے تفریحی ریڈیو اسٹیشنوں پر نوجوان عراقی ہی مختلف پروگراموں کی پروڈکشن کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کئی نوجوانوں نے تو اپنی جمع پونجی سے نشریاتی آلات خریدے ہیں۔ ان اسٹیشنوں پر بہت سے نوجوان رضاکارانہ بنیادوں پر بھی اپنی خدمات فراہم کیے ہوئے ہیں۔
کئی ایسے ریڈیو اسٹیشنوں نے اپنی اپنی ویب سائٹس بھی بنا لی ہیں اور اُن کا نشریاتی مواد ایسی ویب سائٹس پر دستیاب ہے۔ بعض ریڈیو اسٹیشنوں کے پروگرام اتنے مقبول ہو چکے ہیں کہ شہر کے کاروباری حلقے اور دوکاندار اپنے اشتہارت بھی دے رہے ہیں۔
ایسے ہی ایک ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ احمد الجفال کا کہنا ہے کہ جہادیوں کے قبضے کے دوران موصل میں ایک ثقافتی خلا پیدا ہو چکا ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ریڈیو اسٹیشن جہاں ایک طرف تفریح و معلومات فراہم کریں تو دوسری جانب وہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے عملی کوششیں بھی کریں۔