داعش کی ’اخلاقیات کی نگران‘ جرمن نو مسلمہ گرفتار
3 جولائی 2018ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ جرمنی میں حکام نے کسی خاتون شہری کے خلاف شدت پسند تنظیم داعش کی رکنیت اختیار کرنے کے جرم میں کارروائی شروع کی ہے۔ حکام کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث اس خاتون جرمن شہری کے خلاف مقدمہ شروع کرنے میں مسائل کا سامنا تھا۔
تاہم اب ملکی وکیل استغاثہ نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ داعش کی خواتین ارکان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔ اسی سلسلے میں عراق میں مبینہ طور پر داعش کی 'اخلاقی پولیس‘ کے لیے کام کرنے والی جرمن خاتون کے خلاف بھی مقدمہ شروع کر دیا گیا ہے۔
داعش کی ’اخلاقی پولیس‘ کی رکن
جرمن حکام نے داعش کی رکنیت اختیار کرنے والی اس ستائیس سالہ جرمن خاتون کے بارے میں کئی تفصیلات بھی جاری کی ہیں۔
- اس خاتون کی شناخت جینیفر ڈبلیو کے نام سے ظاہر کی گئی ہے۔ یہ خاتون سن 2014 میں مبینہ طور پر سیاحتی ویزا حاصل کر کے شام اور پھر وہاں سے عراق گئی تھی۔
- یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عراق میں ستمبر 2014 سے لے کر سن 2016 کے اوائل تک جینیفر داعش کی ’اخلاقی پولیس‘ کی رکن کے طور پر کام کرتی رہی تھی۔
- اس عرصے میں یہ جرمن خاتون مبینہ طور پر فلوجہ اور موصل میں عوامی مقامات پر گشت کرتے ہوئے یہ دیکھتی تھی کہ وہاں کی خواتین کا رویہ اور لباس داعش کے جاری کردہ ضوابط کے مطابق ہے یا نہیں۔ اس کام کے عوض جینیفر کو داعش سے ستر تا ایک سو امریکی ڈالر ماہانہ تنخواہ بھی دی جاتی تھی۔
- چھ ماہ قبل جنیفر کو ترک حکام نے اس وقت حراست میں لے لیا تھا جب وہ انقرہ میں قائم جرمن سفارت خانے سے نئی سفری دستاویزات کے حصول کی کوششوں میں تھی۔ بعد ازاں اسے ترکی سے ملک بدر کر کے جرمنی بھیج دیا گیا تھا۔
- جرمن حکام نے جنیفر کو جمعہ انتیس جون کے روز وفاقی جرمن ریاست باویریا سے حراست میں لے لیا جب کہ لوئر سیکسنی میں واقع اس خاتون کے گھر کی تلاشی بھی لی گئی۔
'کافی شواہد‘
وفاقی جرمن دفتر استغاثہ کے ترجمان نے اس خاتون کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ’’ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ہم نے داعش کی کسی خاتون رکن کے خلاف اتنے شواہد اکھٹے کر لیے ہیں کہ اب اس کے خلاف مقدمہ شروع کیا جا سکتا ہے۔‘‘
شام اور عراق میں سرگرم دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی رکنیت اختیار کرنے والے جرمن شہریوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ جرمنی واپس لوٹنے پر ان میں سے کئی افراد کے خلاف مقدمے بھی دائر کیے گئے تھے۔ تاہم جرمن حکام کو داعش کی خواتین ارکان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا تھا۔ داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی خواتین عام طور پر داعش کے کسی جنگجو سے شادی کرنے کے بعد شام یا عراق چلی گئی تھیں اور زیادہ تر واقعات میں یہ ثابت کرنا مشکل تھا کہ ایسی خواتین بطور جنگجو داعش میں شامل ہوئی تھیں۔
شام اور عراق کے کئی علاقوں سے داعش کا قبضہ ختم کرایا جا چکا ہے۔ اس کے بعد سے اس تنظیم کے جنگجوؤں نے اپنی حکمت عملی بھی تبدیل کر رکھی ہے اور اب ان کی توجہ دہشت گردانہ حملوں پر مرکوز ہے۔ جرمن جریدے ’اشپیگل‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ملکی سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ شام اور عراق میں داعش اپنے ارکان کو اب یہ تربیت بھی فراہم کر رہی ہے کہ وہ گرفتار ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔
ش ح/ا ب ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)