داعش کی تازہ ترین کارروائی: 250 شامی لاپتہ
7 اپریل 2016خیال کیا جا رہا ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں شامی باشندوں کو آئی ایس کے انتہاپسند باغیوں نے اغوا کر لیا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران شامی حکومتی فورسز اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے متعدد مقامات پر شکست خوردہ ہونے، خاص طور سے شام کے قدیم ثقافتی شہر پالمیرا پر سے اپنے قبضے کے خاتمے کے بعد سے جہادیوں نے مشرقی دمشق میں ایک بڑی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ پاالمیرا کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے سے چُھڑانے کے بعد شامی اور اتحادی فورسز نے کہا تھا کہ اس علاقے کے رہائشی سنیچر کے روز سے اپنے گھروں کو لوٹنا شروع کر دیں گے۔
آئی ایس یا داعش کی طرف سے دمشق پر یہ تازہ ترین حملہ آئندہ ہفتے جینیوا میں امن مذاکرات کے انعقاد سے چند روز پہلے ہوا ہے۔ جینوا مذاکرات کا یہ نیا دور شامی حکومت اور غیر جہادی باغیوں کے مابین فائربندی کے تناظر میں منعقد ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فائر بندی کے سبب ہی شامی فورسز کو اپنی تمام تر توجہ اور قوت داعش کے خلاف لڑنے پر مبذول کرنے کا موقع فراہم ہوا۔
27 مارچ کو پالمیرا سے نکال باہر کیے جانے کے بعد آئی ایس کے جنگجوؤں نے دمشق سے مشرق کی طرف 50 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم شہر دمیر کے نزدیک یہ تازہ ترین حملہ کیا ہے۔
جمعرات کو جس سیمنٹ فیکٹری پر حملہ کیا گیا اُس کے قریب 250 کارکنوں کے لاپتہ ہونے کے بارے میں اس فیکٹری کے منتظم اعلیٰ نے کہا ہے کہ یہ کارکن گزشتہ پیر سے لاپتہ ہیں۔ اس علاقے کے رہائشیوں میں سے ایک نے بیان دیتے ہوئے کہا،’’پیر کی دوپہر سے ہم اپنے گھر والوں سے ملاقات نہیں کر پائے ہیں۔ ہمیں کوئی خبر نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔ ‘‘
شہر دمیر دو حصوں میں منقسم ہے۔ مشرقی حصہ آئی ایس کے کنٹرول میں ہے جبکہ مغربی دمیر پر باغیوں کا قبضہ ہے۔ اس کے باوجود اس علاقے کے ارد گرد متعدد ایسی پوزیشنز ہیں جو ہنوز دمشق حکومت کے قبضے میں ہیں۔ ان میں ایک ملٹری ایئرپورٹ ٹاور ایک پاور پلانٹ شامل ہیں۔
برطانیہ میں قائم شامی امور پرگہری نظر رکھنے والے ادارے سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ یہ جھڑپیں سنگین نوعیت کی تھیں تاہم جہادی زیادہ علاقوں کو اپنے قبضے میں لینے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔
آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدلرحمان کے بقول،’’ پیر سے اب تک سب سے زیادہ خطرناک جھڑپیں ایئرپورٹ کے نزدیک ہوئی ہیں جن میں دو چیک پوائنٹس پر حملے بھی شامل ہیں تاہم آئی ایس اب تک وہاں داخل نہیں ہو سکی ہے۔‘‘