داعش کی جنگی تربیت سے یزیدی لڑکوں کا فرار
26 اپریل 2016داعش کے قبضے میں 20 ماہ گزارنے والے مُراد کا ذہن اس حد تک تبدیل کیا جا چکا تھا کہ اُس نے اپنی والدہ کو بتایا کہ وہ اُس کیمپ میں ہی رہنا چاہتا ہے جہاں اسے جنگی تربیت دی جا رہی تھی تاکہ وہ اپنی برادری سے تعلق رکھنے والوں سمیت داعش کے مخالفین کو قتل کر سکے اور ان کے خلاف جنگ میں حصہ لے سکے۔
اس وقت مرُاد اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی کے ساتھ عراق میں کرُدوں کے کنٹرول والے علاقے میں محفوظ ہے۔ مراد کی والدہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اُسے اپنے بیٹے کو فرار ہونے پر راضی کرنے کے لیے بہت کوشش کرنا پڑی۔ یہی حال بقیہ یزیدی لڑکوں کا بھی تھا جو رواں ماہ کے آغاز میں اُس تربیتی مرکز سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔
مُراد کی والدہ نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا، ’’میرے بیٹے اور دیگر لڑکوں کا دماغ اس حد تک تبدیل کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے خاندان سے کہتے تھے کہ آپ لوگ چلے جائیں، ہم وہیں رہیں گے۔۔۔ یہاں تک کہ وہاں سے نکلنے سے چند لمحوں قبل تک میرا بیٹا کہہ رہا تھا کہ میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گا۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یزیدی لڑکوں کو اس طرح جنگی تربیت دینا دراصل دہشت گرد گروپ داعش کی طرف سے جنگجوؤں کی ایک ایسی نئی نسل تیار کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے جو اس گروپ کے انتہائی تشدد پسندانہ خیالات اور نظریے کے وفادار ہوں۔ داعش کے قبضے میں رہنے والے نو عمر لڑکوں کو جو تربیت فراہم کی جا رہی تھی اس سے وہ خود بھی خوفزدہ رہتے تھے اور یہاں تک کہ داعش کے چنگل سے بچ نکلنے کے باوجود بھی وہ خوفزدہ نظر آتے ہیں۔
عراق اور شام کے کئی علاقوں پر قبضہ کرنے والے شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ یا داعش نے مراد، اس کی والدہ اور چھوٹے بھائی کو عراقی شہر سِنجار کے قریب ایک گاؤں سے اگست 2014ء میں ایک حملے کے بعد اپنے قبضے میں لیا تھا۔ اس حملے میں ہزاروں یزیدی خواتین یا لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی یا پھر انہیں جنسی غلام بنا لیا گیا تھا۔