داعش کے خلاف پالیسیاں ناکام، مغربی رہنما ’بےچین‘
16 ستمبر 2015ان عوامل کے علاوہ مغربی دنیا کے رہنماؤں کو اس بات پر بھی بہت تشویش ہے کہ عالمی منڈیوں میں خام تیل کی قیمتیں تاحال اپنی پریشان کن حد تک کم سطح پر ہیں جبکہ چینی معیشت میں ترقی کا عمل بھی ابھی تک سست روی کا شکار ہے۔
ایک برطانوی تھنک ٹینک کے مطابق اس وقت عالمی سطح پر جو سکیورٹی ماحول پایا جاتا ہے، اس کی خاص بات وہ ’اسٹریٹیجک بےچینی‘ ہے، جس کا مغربی دنیا کے لیڈروں کو سامنا ہے۔ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز IISS کے سالانہ جائزے کے مطابق مغربی دنیا کے سربراہان مملکت و حکومت کو اس بے چینی کا سامنا جن چیلنجز کی وجہ سے ہے، ان کی بنیاد ان رہنماؤں کی یہ سوچ ہے کہ ’عمومی نظم و ضبط بہتر حکمرانی‘ کا نتیجہ ہونا چاہیے۔
آئی آئی ایس ایس کے اس سالانہ جائزے کے مطابق سال رواں کی پہلی ششماہی کی خاص بات یہ رہی کہ ’مشرق وسطٰی میں جاری بحران، خاص کر شام، عراق، یمن اور لیبیا میں وسیع تر بدامنی اور عمومی جنگی حالات شدید تر‘ ہوتے گئے۔
یہ بحران ہزارہا انسانوں کی موت کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ کئی ملین انسانوں کی ان کے گھروں اور آبائی علاقوں سے بےدخلی کی وجہ بھی بنے اور یہی بےدخلی بعد ازاں مہاجرین کی آمد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ان بحرانوں کا سبب بنی، جن کا اس وقت مشرق وسطٰی اور مشرقی اور مغربی یورپ کے بہت سے ملکوں کو سامنا ہے۔
اس برطانوی تھنک ٹینک کے مطابق شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات وہ خطرات ہیں جن کا ’مشرق وسطیٰ کو آئندہ غالباﹰ کافی عرصے تک سامنا رہے گا‘۔
اس انسٹیٹیوٹ کے سالانہ جائزے کے مطابق اسلامک اسٹیٹ یا داعش کا شام اور عراق میں اپنے قدم جما لینا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ مشرق وسطٰی کے منظر نامے پر یہ خطرہ بظاہر کافی عرصے تک موجود رہے گا۔
اس کے علاوہ یورپ میں ’سلامتی سے متعلق نظم و ضبط‘ کو روسی قیادت کی خود اعتمادی نے ہلا کر رکھ دیا ہے حالانکہ اس سلسلے میں روس کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں بھی عائد ہیں۔ اس انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق روس مختلف علاقائی تنازعات میں اپنے قومی مفادات سے متعلق اپنی سوچ کے اظہار میں واضح سختی لا چکا ہے اور یہ وہ رویہ ہے جو طویل المدتی بنیادوں پر مشرق وسطٰی کے تنازعات کے حل کی کوششوں پر بھی اثر انداز ہو گا۔
رپورٹ کے مطابق عراق اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کو ڈرامائی حد تک وسعت حاصل ہوئی ہے اور عراق اور شام میں امریکا کی سربراہی میں دولت اسلامیہ کے خلاف کی جانے والی فضائی کارروائیوں سے بھی اب تک وہ فیصلہ کن نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے جن کی یہ بین الاقوامی اتحاد توقع کر رہا تھا۔
اس کا عسکری سطح پر ایک سبب یہ بھی ہے کہ اسلامک اسٹیٹ نے ایک عسکریت پسند تنظیم کے طور پر اب تک خود کو ’قدرے سخت جان اور بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت پیدا کرنے کا اہل‘ ثابت کیا ہے۔