’داعش کے مشتبہ دہشت گرد کا ہدف برلن ایئر پورٹ تھا‘
11 اکتوبر 2016جرمنی کے مشرقی شہر لائپزگ سے منگل گیارہ اکتوبر کی صبح ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق داخلی سلامتی کے نگران ملکی خفیہ ادارے کے سربراہ ہنس گیورگ ماسین نے نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو بتایا کہ جابر البقر نامی یہ مشتبہ شامی عسکریت پسند شام اور عراق میں سرگرم دہشت گرد گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے نام پر برلن کے ایک ہوائی اڈے پر بم دھماکا کرنا چاہتا تھا۔
ہنس گیورگ ماسین کے مطابق، ’’ہمیں خفیہ اداروں سے یہ اطلاعات ملی ہیں کہ ملزم البقر پہلے جرمنی میں مسافر ریل گاڑیوں کو نشانہ بنانا چاہتا تھا لیکن بعد میں اس نے حتمی فیصلہ یہ کیا تھا کہ وہ وفاقی جرمن دارالحکومت برلن کے ہوائی اڈوں میں سے ایک کو اپنا ہدف بنائے گا۔‘‘
جابر البقر، جس کی عمر 22 برس ہے، کے بارے میں گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن میڈیا کے ایک حصے نے یہ دعوے کیے تھے کہ وہ برلن کے ایک ہوائی اڈے پر بم حملہ کرنا چاہتا تھا۔ اب اس بارے میں داخلی انٹیلیجنس کے وفاقی ادارے کے سربراہ کا بیان اس امر کی پہلی باقاعدہ تصدیق ہے کہ البقر نے واقعی ایک جرمن ایئر پورٹ کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
جرمن حکام نے البقر کو گرفتار کرنے کا فیصلہ گزشتہ جمعے کے روز کیا تھا، جب ملزم نے کسی بم کی تیاری میں استعمال ہونے والا ایک کیمیکل خریدا تھا۔ اس بارے میں ہنس گیورگ ماسین نے جرمن پبلک براڈکاسٹر اے آر ڈی کو بتایا، ’’ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ کیمیکل وہ آخری مادہ تھا، جو ملزم نے بم بنانے کے لیے خریدا تھا۔‘‘
جابر البقر کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ جب جرمن حکام نے اسے گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا تو ہفتہ آٹھ اکتوبر کے روز پولیس نے اس کے فلیٹ پر چھاپہ مار کر 1.5 کلوگرام TATP نامی دھماکا خیز مواد بھی برآمد کر لیا تھا۔ یہ وہی دھماکا خیز مواد ہے، جو دہشت گردوں نے پیرس اور برسلز میں کیے جانے والے بم حملوں میں بھی استعمال کیا تھا۔
ہفتے ہی کے روز پولیس نے البقر کو گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی تھی، لیکن اس دوران وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور اس کی گرفتاری اتوار اور پیر کی درمیانی شب عمل میں آئی تھی۔
ابتدائی اطلاعات یہ تھیں کہ دو روز تک مفرور رہنے والے جابر البقر کو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن پولیس نے کوئی تفصیلات نہیں بتائی تھیں۔ اب اس امر کی تصدیق کر دی گئی ہے کہ البقر کو اس کے تین ہم وطن شہریوں نے پکڑ کو اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے تھے اور پھر پولیس کو اطلاع کر دی گئی تھی۔ اس طرح البقر کی گرفتاری دراصل اس کے تین ہم وطن افراد کی طرف سے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیے جانے کا ایک واقعہ تھا۔
ہنس گیورگ ماسین نے مطابق البقر کے جن تین شامی ہم وطنوں نے اسے پکڑ کا پولیس کے حوالے کیا، انہیں اس مشتبہ عسکریت پسند نے یہ پیشکش بھی کی تھی کہ وہ اس وقت اس کے پاس موجود ایک ہزار یورو اور دو سو امریکی ڈالر لے کر اسے جانے دیں اور پولیس کے حوالے نہ کریں۔