داعش یورپ میں حملے بڑھا سکتی ہے، جرمنی
29 جون 2016جرمن حکومت کے مطابق اس کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسیاں ایسے کسی بڑے حملے کا جواب دینے کے لیے تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈی میزیئر نے امریکی سربراہی میں قائم اتحاد کی طرف سے عراق اور شام میں شدت پسند گروپ داعش کے خلاف کامیابیوں کا خیر مقدم کیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سے یورپ میں حملوں کے خطرے کا خاتمہ نہیں ہو رہا۔
ڈی میزیئر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا، ’’ ہمیں خطرہ ہے کہ اسلامک اسٹیٹ، اپنی سرگرمیاں وہاں سے نکال کر یورپ کی طرف منتقل کر دے گی، خاص طور پر اُس علاقے میں فوجی ناکامیوں کی وجہ سے۔‘‘
جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی BfV کے سربراہ ہانس جورج ماسن نے اسی پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر حملوں، خاص طور پر فوجی طرز کے ہتھیاروں کے حملوں کے خطرات کے سبب جرمنی میں ہائی الرٹ رہا ہے۔ یہ ہائی الرٹ گزشتہ برس نومبر میں پیرس میں اور رواں برس مارچ میں برسلز میں ہونے والے حملوں کے بعد رہا۔
ماسن کا مزید کہنا تھا کہ ان کی ایجنسی نے اس طرح کے کسی واقعے سے نمٹنے کے لیے نہ صرف مختلف تربیتی مشقیں کی ہیں بلکہ متعدد حملوں کی کوششوں کو ناکام بھی بنایا جا چکا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں تین شامی باشندوں کو ڈسلڈورف میں ایک بڑے حملے کی منصوبہ بندی کے شبے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ماسن کا مزید کہنا تھا کہ ان کی ایجنسی چھوٹے پیمانے پر انفرادی طور پر شدت پسندی کی طرف مائل افراد کی طرف سے ممکنہ حملوں کے حوالے سے بھی چوکنی ہے۔گزشتہ برس ایک ملین سے زائد شامی مہاجرین کی جرمنی آمد کے بعد اس طرح کے حملوں کے خطرات بھی موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکام نے 17 مختلف افراد کے خلاف واضح ثبوت حاصل کیے ہیں جو مہاجرین کے روپ میں جرمنی میں داخل ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر یا تو ہلاک ہو چکے ہیں یا پھر گرفتار۔
جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈی میزیئر کے مطابق جرمنی سے داعش میں شمولیت کے لیے شام یا عراق جانے والوں کی تعداد میں کمی تو واقع ہوئی ہے مگر یہ اب بھی ایک مسئلہ ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ جرمنی سے ایسے 780 افراد شام یا عراق گئے تھے جن میں سے اندازوں کے مطابق ایک تہائی افراد واپس لوٹ چکے ہیں۔ ڈے میزیئر کا کہنا تھا کہ اس طرح کے افراد کو معاشرے میں ضم کرنا بہت اہم ہے۔