داووس: عالمی اقتصادی فورم کا پہلا دن
27 جنوری 2011اس پانچ روزہ فورم کے پہلے دن روسی صدردیمتری میدویدیف نے افتتاحی سیشن کا افتتاح کیا۔ تاہم ماسکو کے ہوائی اڈے پر ہونے والے خود کش حملے کے تناظر میں انہوں نے اپنے اس دورے کو مختصر کر دیا۔ میدویدیف نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ وہ داووس اس لیے آئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ورلڈ اکنامک فورم ایک ایسی اہم جگہ ہے، جہاں روس عالمی اقتصادی ریکوری کے لیے اپنی پوزیشن بہتر طریقے سے واضح کرسکتا ہے۔ میدویدیف نے اس تنقید کے خلاف اپنے ملک کی وکالت کی کہ روس میں سرمایہ کاروں کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔
اس فورم کے پہلے دن ماہرین نے اپنی گفتگو میں زور دیا کہ عالمی اقتصادی ترقی کو تیز تر بنانے کے لئے ابھرتی ہوئی معیشتوں کو اہم کردار نبھانا ہو گا۔ اس موقع پر شرکاء کا خیال تھا کہ سن 2011ء کے دوران مغربی ممالک کے بجائے ایشیا اور لاطینی امریکی ممالک پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔
افتتاحی سیشن کے دوران بھارتی سافٹ ویئر کمپنی Wipro کے چیئر مین عظیم پریم جی نے کہا،’ اس وقت مغربی ممالک میں اقتصادی ترقی و نمو کی رفتار کم ہو رہی ہے جبکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ترقی کی رفتار بڑھ رہی ہے۔‘ انہوں نے زور دیا کہ اس مخصوص صورتحال میں عالمی رہنماؤں کو چاہیے کہ طاقت کے توازن کا فرق واضح کریں۔' پریم جی نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ دس سالوں کے دوران ایشیا اور لاطینی امریکی ممالک کی معیشت میں بہت زیادہ وسعت پیدا ہو گی۔
فورم میں شریک آئی ایم ایف سے منسلک ایک چینی مندوب Zhu Min نے کہا کہ عالمی اقتصادیات کی بحالی اور اس میں ترقی کے لئے چین اور بھارت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس دوران کئی مندوبین نے اعتراف کیا کہ رواں دہائی کے دوران بھارت، چین اور برازیل کی اقتصادی ترقی، عالمی معیشت میں اہم اور مثبت تبدیلیاں لانے کی مؤجب بنے گی۔
اس پانچ روزہ فورم کے دوران ڈھائی ہزار مندوبین عالمی معیشت میں بہتری کے لئے مذاکرات میں شریک ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: افسر اعوان