1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
4 ستمبر 2022

بادشاہت کے زمانے میں تین طرح سے حکومت کی جاتی تھی۔ نمبر 1 فوجی طاقت اور قوت سے، نمبر 2 بادشاہ اپنی فیاضی، عدل و انصاف کا اظہار کرتے ہوئے اور نمبر 3 درباری کلچر کے ذریعے۔ پاکستان میں بھی درباری کلچر موجود ہے۔

https://p.dw.com/p/4GNFz
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
خوشامد کے اس کلچر نے لوگوں کی شخصیت کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا، ڈاکٹر مبارکتصویر: privat

بادشاہت کے زمانے میں رعایا پر تین طرح سے حکومت کی جاتی تھی۔ نمبر 1 فوجی طاقت اور قوت سے، تاکہ لوگوں میں ڈر اور خوف رہے اور وہ بادشاہ کے وفادار رہتے رہیں، اس کے احکامات پر عمل کریں۔ نمبر-2 بادشاہ اپنی فیاضی، عدل و انصاف کا اظہار کرتے ہوئے رعایا کو سہولتیں مہیا کرتا ہے، لیکن یہ بادشاہ کا احسان ہوتا تھا، رعایا کا حق نہیں کہ وہ سہولتوں کے لیے مطالبہ کریں۔ نمبر-3 درباری کلچر کے ذریعے جس میں رسومات اور ادب آداب کے اصول ہوتے تھے۔ رعایا کو ذہنی طور پر اس کلچر کے تسلط میں لاکر ذہنی طور پر شاہی نظام کا پابند کر دیا جاتا تھا۔

درباری کلچر میں سب سے زیادہ اہمیت بادشاہ کی ذات کو دی جاتی تھی۔ بادشاہ کے پاس الٰہی طاقت ہوتی تھی اور وہ یا تو خود دیوتا ہوتا تھا یا دیوتاؤں کا نمائندہ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بادشاہ کے خلاف نہ تو کوئی بغاوت کی جائے اور نہ تنقید کی جائے۔ یورپ کے عہد وسط میں لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ بادشاہ کے چھونے سے ایک خاص قسم کی بیماری ختم ہو جاتی ہے۔ اس موضوع پر فرانسیسی مورخ مارک بلوخ نے رائل ٹچ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ دوسرے ملکوں کے مورخوں نے بھی اپنی تاریخوں میں بادشاہ کے معجزوں کو بیان کیا ہے۔

چونکہ بادشاہ کی ذات الٰہی ہوتی تھی۔ اس لیے اسے تقدس کا درجہ حاصل تھا، جب دربار میں آمراء بادشاہ کے سامنے آتے تھے تو اپنی وفاداری کے اظہار کے لیے اسے سجدہ کرتے تھے۔ اس کے پیر چومتے تھے اور اس کے سامنے خاموشی سے اپنی نشست پر کھڑے ہو جاتے تھے۔ مغل دربار میں بادشاہ کو چہار تسلیمات بجا لا کر اس کی ذات سے عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔ چین میں یہ رسم تھی کہ بادشاہ کے سامنے نو بار سجدہ ریز ہوا جائے۔ یہ رسم کیوٹی کہلاتی تھی۔ باہر سے آنے والے سفیروں کے لیے بھی لازمی تھا کہ وہ یہ رسم ادا کریں۔ جب انگلستان کے ایک سفیر نے انکار کیا تو اسے آنے کی اجازت نہیں ملی۔

دربار کی رسومات میں یہ بھی ضروری تھا کہ درباری بادشاہ کو نظر پیش کریں اس کے جواب میں بادشاہ تہواروں اور خاص موقعوں پر درباریوں کو انعامات سے نوازتا تھا اور ان کی خدمات پر خطابات بھی دیا کرتا تھا۔ یہ دربار کی ان رسومات کے ایک خاص کلچر کی تشکیل ہوئی تھی، جس کا مقصد تھا کہ درباریوں کو اس کلچر کے ذریعے وفادار رکھا جائے اور وہ بادشاہ کے احسان مند رہیں۔

بادشاہ جہاں ایک جانب آمراء اور رعایا پرعنایات کرتا تھا وہیں دوسری جانب جرائم سازشوں میں ملوث ہونے اور بغاوت کرنے کے الزام میں سخت سزائیں بھی دیتا تھا۔ ابن بطوطہ نے جو محمد تغلق کے عہد میں ہندوستان آیا تھا۔ لکھا ہے کہ بادشاہ کے محل کے باہر ایک چبوترے پر جلاد ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں فوراً ہی قصور وار شخص کی گردن اڑا دی جاتی تھی۔ عثمانی ترکوں میں یہ روایت پڑ گئی تھی کہ اگر کوئی جنرل فوجی مہم میں شکست کھا جاتا تھا تو نہ صرف اسے قتل کر دیا جاتا تھا، بلکہ اس کے مال و اسباب کو بھی ضبط کر لیا جاتا تھا۔ دربار کے اس سازشی ماحول میں کسی کو علم نہیں ہوتا تھا کہ اسے انعامات و کرامات ملیں گے یا اس کا سر اڑا دیا جائے گا۔

رعایا کو ذہنی طور پر متاثر کرنے کے لیے بادشاہ تہواروں پر فتوحات کے جشن پر اور خاص خاص موقعوں پر شہر میں اپنی فوج اور سازوسامان کے ساتھ جلوس نکالتا تھا۔ یہ جلوس اس قدر شان و شوکت والے ہوتے تھے کہ ان کو دیکھنے کے لیے گاؤں اور دیہاتوں سے لوگ آیا کرتے تھے۔ وہ بادشاہ کی دولت، طاقت اور رعب سے متاثر ہوتے تھے۔

بادشاہ اپنے دربار کو خاص طور سے غیر ملکی سفیروں کی آمد پر ان کو متاثر کرنے کی خاطر آراستہ کرتا تھا۔ ضیاء الدین برنی نے اپنی کتاب ''تاریخ فیروز شاہی‘‘ میں لکھا ہے کہ بلبن دربار کو اپنی شاہی عظمت کا مظاہرہ کرنے کے لیے قیمتی پردوں اور قالینوں سے آراستہ کرتا تھا۔ اس کے جشن فوجی دستے کے نوجوان کھلے سینے کے ساتھ ننگی تلواریں کاندھوں پر رکھے کھڑے ہوتے تھے۔ آنے والوں پر اس قدر دہشت طاری ہو جاتی تھی کہ بعض تو بے ہوش ہو جاتے تھے۔

بادشاہ اپنی شان کا مظاہرہ تہواروں کے موقعوں پر بھی کرتے تھے اور جب کسی مہم سے فتح کے بعد واپس آتے تھے تو رعایا کے لیے دعوتوں کا اہتمام بھی کرتے تھے۔

درباری کلچر کی ایک اور اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہ مورخوں شاعروں، موسیقاروں، رقاصوں اور آرٹسٹوں کی سرپرستی کرتے تھے۔ دربار کے یہ دانشور اور فنون لطیفہ کے ماہرین بادشاہ کی تعریف و توصیف میں مصروف رہتے تھے۔ اس لیے شاہی سرپرستی میں اشرافیہ کا وہ اعلیٰ کلچر پیدا ہوتا تھا، جس کا کوئی تعلق عوام سے نہیں تھا۔ اس درباری کلچر کی وجہ سے اشرافیہ اور عوام میں بولی جانے والی زبان بھی ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جاتی تھی۔ اشرافیہ کے کلچر میں طبقاتی فرق بہت نمایاں تھا۔ ادب و آداب، خشت و برسات اور بول چال میں طبقاتی فرق کو ملحوظ رکھا جاتا تھا۔

اس درباری کلچر کی وجہ سے عام لوگ خود کو کم تر سمجھتے تھے اور وہ خود کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ اپنے عوامی کلچر پر فخر کریں یا اس کے ذریعے خود میں اعتماد پیدا کر کے اشرافیہ کے کلچر اور اس کے اثرات کا خاتمہ کریں۔ یہ درباری کلچر اس وقت تک اپنی توانائی کو برقرار رکھ سکا جب تک اس کے پیروکار جاگیردار تھے اور اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز تھے۔ اس لیے وہ اس کے اہل تھے کہ اپنی فیاضی کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں کو صدقہ و خیرات دیتے رہیں اور اس طرح انہیں اپنے حلقہ اثر میں پابند کیے رہیں۔

اشرافیہ اور عوامی کلچر کے فرق کی وجہ سے جب معاشرہ طبقات میں تقسیم ہوا تو اس نے خوشامد کے کلچر کو پیدا کیا۔ امراء بادشاہ کی خوشامد کرتے تھے اور آمراء کے ملازمین ان کی جھوٹی تعریف و توصیف کرتے تھے۔ خوشامد کے اس کلچر نے لوگوں کی شخصیت کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا اور نتیجہ یہ تھا کہ کوئی بھی سچائی بیان کرنے کی بجائے جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے مفادات تو پورے کرتا تھا، مگر معاشرہ بحیثیت مجموعی پسماندہ ہوتا جاتا تھا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں اگرچہ شاہی خاندان تو نہیں رہے مگر درباری کلچر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔