دریائے رائن کا ماضی اور حال
22 مئی 2013یہاں بلند و بالا پہاڑوں، خوبصورت وادیوں، سرسبز و شاداب میدانوں اورگنجان آباد شہروں کے بیچوں بیچ سےگزرتا ہوا پھر ہالینڈ میں داخل ہوکر آخر میں بحیرہ ء شما لی میں جا گر تا ہے۔
یہ جرمنی کا سب سے طویل دریا ہے۔ اس کے دونوں کناروں پر واقع قر ونِ وسطیٰ کے قلعوں اور انگور کے باغات نے ا سے ایک ایسی خوبصورتی بخشی ہے جس کا چرچا دور دور تک سنائی دیتا ہے۔ تاہم اس دریا سے پورا فائدہ نہ اٹھایا جا سکا کیوں کہ ایک طویل عرصے تک ا س کا پانی بہت آلودہ رہا۔
پھر بھی مختلف کھیلوں کیلئے لوگ دریائے رائن کی طرف کھنچےچلے آتے ر ہے اور پانی کے تیز اورخطرناک بہاؤ کے باوجود لوگ اس میں پیراکی کرتے رہے۔ یہ قصہ بھی مشہور ہےکہ سخت سردی کے موسم میں بعض جگہوں پر دریا کا پانی جم کر ایک طر ح سے برف کا فرش بن جا تا تھا اور لوگ ا س کے اوپر چل کر دریا پارکر لیتے تھے۔
بیس سال قبل سوئٹزرلینڈ میں ایک ماحولیاتی تباہی کے بعد بہت سے لوگوں نے اس دریا کا رخ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ماہرین اس با ت پر پریشا ن تھےکہ آیا اس کا پانی آ لودگی سےکبھی پاک ہوسکےگا یا نہیں۔ ایک حالیہ کانفرنس میں بین الاقوا می کمیشن برائے تحفظ رائن نے بتایا کہ رائن ایک بار پھر’’حیات آور‘‘ دریا کا روپ دھار چکا ہے۔
کیمیاوی زہر سے آلودہ
1986ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں واقع ایک د واساز کمپنی SANDOZ کے پیداواری پلانٹ کے سٹور میں آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں بھاری مقدار میں مہلک زہریلے مادے د ریائے رائن میں داخل ہوگئے۔ اس آ لودگی کی وجہ سے دریا میں کثیر تعداد میں مچھلیاں اور دیگر چھوٹی آبی مخلوق ختم ہوکر رہ گئیں۔ اور یہ دریا یورپ کے سب سے بڑ ے گندے نالےکی حیثیت اختیا رکرگیا۔
بون شہر میں بین الا قوامی کمیشن برائے تحفظ رائن کے سربراہ ہولز وارتھ فرٹس کے بقول، ''یہی وہ تباہی اور بربادی تھی جو اس دریا کی آ لودگی کا باعث بنی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ دواساز کمپنی کا یہ حادثہ اس وقت کا سب سے ممکنہ بُرا واقعہ تھا جس نے سیاستدانوں کو بھی یہ سو چنے پر مجبورکردیا کہ پا نی کو آلودگی سے بچانےکا معاملہ کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دریا کے پانی کو آ لودگی سے بچا نےکے لیے بہت محنت درکار ہوگی تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکے اور وہ دوبارہ اس میں پیراکی کر سکیں۔ با لآخر لوگوں کے شدید دباؤ نے سیاستدانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ پا نی کو آ لودگی سے بچانےکے لیے جلد ہی کوئی مؤ ثر قدم ا ٹھائیں۔ تب سے صنعتی اورعا م پا نی کی صفا ئی کی تنصیبات پر تقریباً 60 ارب یورو کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔ جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی سا لا نہ ایک ارب یورو خرچ کیے جا رہے ہیں۔
ہولزوارتھ نے بتا یا کہ دریائے را ئن کےکنا ر ے واقع کمپنیوں نےجو احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں اس کی وجہ سے دوبارہ کسی ناگہانی واقعہ کا خطرہ کم ہوگیا ہے۔ ان کے خیا ل میں دریا کو صاف رکھنے کے لئے تعمیری سوچ ضروری ہے۔
بین الاقوامی کمیشن برائے تحفظِ رائن ان لوگوں کےساتھ مل کر، جو دریا ئے رائن کےکنا روں پر آباد ہیں، پانی کو آ لودگی سے بچانےکے لئے ایسی تدابیر اختیارکرنا چاہتا ہے جن کے نتیجے میں لوگ ایک بار پھر اس دریا سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ہولزوارتھ نےکہا، ''ہم دریا کو اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کا ایک حصہ بنا نا چا ہتے ہیں۔‘‘
حال ہی میں دریائے رائن کے کنارے بون اورکوبلنزکے درمیان 320 کلومیٹر لمبا تفریحی را ستہ مکمل کر لیا گیا۔ مزید براں رائن کو، جسے یو ر پ کےگنجان آباد دریا کا درجہ حا صل ہے، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نےعالمی ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔ یہ دریا ایک مرتبہ پھر 60 سے زائد مختلف اقسام کی مچھلیوں کا گھر بن چکا ہے۔